قَالُوا إِن يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَّهُ مِن قَبْلُ ۚ فَأَسَرَّهَا يُوسُفُ فِي نَفْسِهِ وَلَمْ يُبْدِهَا لَهُمْ ۚ قَالَ أَنتُمْ شَرٌّ مَّكَانًا ۖ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا تَصِفُونَ
برادران یوسف کہنے لگے : اگر اس نے چوری کی ہے تو اس سے بیشتر اس کا بھائی (یوسف) بھی [٧٤] چوری کرچکا ہے۔ یوسف نے (ان کے اس الزام کو) دل میں چھپائے رکھا اور ان پر کچھ ظاہر نہ ہونے دیا اور (زیر لب) کہنے لگے : تم بہت [٧٥] ہی برے لوگ ہو۔ یہ جو کچھ تم بیان کر رہے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے
[٧٤] برادران یوسف کا یوسف پہ چوری کا الزام :۔ چند ہی لمحے پیشتر یہی برادران یوسف یہ اعلان کر رہے تھے کہ ہم لوگ شریف زادے ہیں چوری یا فساد کرنے والے نہیں ہیں۔ پھر اسی مقام پر صرف بن یمین پر ہی چوری کے الزام کو درست تسلیم نہیں کیا بلکہ اس کے بڑے بھائی ( یوسف علیہ السلام) پر چوری کا الزام جڑ دیا۔ اسی ایک جملہ سے معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ ان دونوں بھائیوں کے متعلق کس قدر معاندانہ اور حاسدانہ جذبات رکھتے تھے اور جو کچھ خود ان کے حق میں کرتے رہے۔ اس کا انھیں کبھی خیال بھی نہ آتا تھا۔ [٧٥] اس مقام پر بھی سیدنا یوسف علیہ السلام نے پیغمبرانہ صبر و تحمل سے کام لیا۔ یہ عین ممکن تھا کہ اگر اس وقت کوئی بات آپ کے منہ سے نکل جاتی تو سارا راز فاش ہوجاتا اور حالات دوسرا رخ اختیار کر جاتے لیکن سیدنا یعقوب علیہ السلام کے لیے صبر و توکل کے ابتلاء کا دور ابھی باقی تھا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ ابھی یوسف علیہ السلام کو مزید بلند درجات عطا فرمانا چاہتے تھے۔ اتنے بلند کہ آپ کے بچپن کے دیکھے ہوئے خواب کی تعبیر نتھر کر سامنے آجائے۔ البتہ ان کے دل میں یہ ضرور خیال آیا کہ یہ اخلاقی لحاظ سے کس قدر گرچکے ہیں کہ محض حسد و عناد کی بنا پر بلاتامل دوسرے پر الزام عائد کردیتے ہیں۔