سورة یوسف - آیت 58

وَجَاءَ إِخْوَةُ يُوسُفَ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنكِرُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

(کچھ عرصہ بعد) یوسف کے بھائی مصر آئے اور یوسف کے پاس حاضر [٥٧] ہوئے۔ یوسف نے تو انھیں پہچان لیا مگر وہ انھیں نہ پہچان سکے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٥٧] عام قحط اور مصر میں غلہ کی تقسیم کا نظام :۔ برادران یوسف آپ کے پاس اس وقت آئے جب آپ کو بادشاہ بنے ہوئے آٹھ سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔ پہلے سات سال انتہائی خوشحالی کا دور تھا۔ اس دور میں آپ نے کافی غلہ محفوظ کرلیا تھا۔ اس کے بعد جب قحط سالی کا دور شروع ہوا تو یہ قحط سالی صرف ملک مصر میں ہی نہ تھی بلکہ آس پاس کے ممالک میں بھی پھیل چکی تھی۔ اب صورت حال یہ تھی کہ مصر میں تو غلہ سستا تھا جبکہ آس پاس کے علاقہ میں بہت مہنگے نرخوں پر فروخت ہو رہا تھا اور غلہ کے حصول کے لیے آس پاس کے علاقوں کے باشندے مصر کا رخ کرتے تھے۔ مصر میں غلہ کی فراہمی اور اس کی نکاس کا تمام تر انتظام سیدنا یوسف علیہ السلام نے خود سنبھال رکھا تھا اور اس انتظام کو موجودہ دور کے راشن سسٹم سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ بیرونی علاقوں سے حصول غلہ کے لیے آنے والوں کے لیے یہ شرط تھی کہ وہ درخواست پیش کریں کہ انھیں اپنے گھر کے کتنے افراد کے لیے غلہ درکار ہے۔ ان کے پورے پورے نام اور پتے لکھے جائیں اور ان کو رجسٹر میں درج کیا جائے اور درخواست کی منظوری کے لیے درخواست حکام بالا کے پاس پیش کی جائے۔ درخواست کی تحقیق کے بعد فی کس ایک بار شتر غلہ کی منظوری دے دی جاتی تھی۔ اسی سلسلہ میں برادران یوسف بھی مصر آئے تھے۔ انہوں نے بھی حسب ضابطہ درخواست دی۔ یہ درخواست بالآخر سیدنا یوسف علیہ السلام تک پہنچی۔ آپ نے درخواست کی منظوری دے دی مگر ساتھ ہی ان درخواست دہندگان کو اپنے پاس طلب کرلیا۔ اب برادران یوسف سیدنا یوسف علیہ السلام کے سامنے کھڑے تھے۔ آپ انھیں خوب پہچانتے تھے۔ لیکن ان کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ آسکتی تھی کہ جس بادشاہ کے حضور کھڑے غلہ کی درخواست پیش کر رہے ہیں وہ ان کا بھائی یوسف ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کی وہ بات پوری ہوئی جو اس نے برادران یوسف کے یوسف علیہ السلام کو کنویں میں ڈالتے وقت یوسف علیہ السلام کے دل میں ڈالی تھی۔