فَلَمَّا رَأَىٰ قَمِيصَهُ قُدَّ مِن دُبُرٍ قَالَ إِنَّهُ مِن كَيْدِكُنَّ ۖ إِنَّ كَيْدَكُنَّ عَظِيمٌ
پھر جب عورت کے خاوند (عزیز مصر) نے یوسف کی قمیص دیکھی تو پیچھے سے پھٹی تھی۔ (یہ دیکھ کر وہ اپنی بیوی سے) کہنے لگا : یہ تو تم عورتوں کا ایک چلتر [٢٨] ہے۔ واقعی تمہارے چلتر بڑے (خطرناک) ہوتے ہیں
[٢٨] عورتوں کا فتنہ :۔ جب سیدنا یوسف علیہ السلام کی قمیص دیکھی گئی تو وہ آگے سے پھٹی ہوئی تھی۔ عزیز مصر کو معلوم ہوگیا کہ اصل مجرم اس کی بیوی ہے اور اس کا بیان محض فریب کاری ہے۔ لیکن اپنی اور اپنے خاندان کی بدنامی کی وجہ سے اس نے اپنی بیوی پر کوئی مواخذہ نہیں کیا، مبادا یہ بات پھیل جائے صرف اتنا ہی کہا کہ یہ بیان تیرا ایک چلتر تھا اور یوسف علیہ السلام پر بہت بڑا بہتان تھا اور تم عورتوں کے چلتر بڑے گمراہ کن ہوتے ہیں۔ یوسف علیہ السلام کی تم دہری مجرم ہو۔ ایک اسے بدکاری پر اکسایا۔ دوسرے اس پر الزام لگا دیا۔ لہٰذا اب اس سے معافی مانگو۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ اس آیت میں ﴿اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ﴾ عزیز مصر کا قول نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ چنانچہ کسی بزرگ سے منقول ہے وہ کہا کرتے تھے کہ میں شیطان سے زیادہ عورتوں سے ڈرتا ہوں۔ اس لیے کہ جب اللہ تعالیٰ نے شیطان کا ذکر کیا تو فرمایا کہ شیطان کا مکر کمزور ہے۔ (٤: ٧٦) اور جب عورتوں کا ذکر کیا تو فرمایا کہ تمہارا مکر بہت بڑا ہے۔ اور درج ذیل حدیث بھی اسی مضمون پر دلالت کرتی ہے۔ سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے زیادہ سخت کوئی فتنہ نہیں چھوڑا‘‘ (بخاری، کتاب النکاح، باب مایتقی من شؤم المراۃ) اسی طرح ﴿وَاسْتَغْفِرِیْ لِذَنْبِکِ﴾سے مراد یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یوسف سے اپنے گناہ کی معافی مانگو اور یہ بھی کہ اللہ سے اپنے گناہ کی معافی مانگو۔