وَإِن كَانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِن دُبُرٍ فَكَذَبَتْ وَهُوَ مِنَ الصَّادِقِينَ
اور اگر اس کی قمیص پیچھے سے پھٹی ہے تو عورت جھوٹی ہے اور یوسف [٢٧] سچا ہے
[٢٧] قرینہ کی شہادت :۔ لیکن سیدنا یوسف علیہ السلام کا بیان زلیخا کے بالکل الٹ اور مبنی برحقیقت تھا۔ اب سوال یہ تھا یہ کیسے معلوم ہو کہ ان دونوں میں سچا کون ہے اور جھوٹا کون؟ جب یہ بات گھر والوں میں پھیل گئی تو عزیز مصر کے خاندان سے ہی ایک آدمی کہنے لگا : ذرا یوسف کی قمیص کو تو دیکھو اگر وہ پیچھے سے پھٹی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یوسف علیہ السلام آگے بھاگ رہا تھا اور زلیخا نے اسے پیچھے سے کھینچا ہے اور اس کھینچا تانی میں قمیص پھٹ گئی۔ اس صورت میں زلیخا جھوٹی ہوگی اور یوسف سچا ہوگا اور اگر قمیص آگے سے پھٹی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یوسف علیہ السلام تقاضا کر رہا تھا اور زلیخا اپنی مدافعت کر رہی تھی۔ اس کھینچا تانی میں یوسف علیہ السلام کی قمیص آگے سے پھٹ گئی۔ اس صورت میں یوسف علیہ السلام جھوٹا ہے اور زلیخا سچی۔ یہ بات سب کو معقول معلوم ہوئی۔ اس آیت میں ﴿وَشَہِدَ شَاہِدٌ مِّنْ اَہْلِہَا ﴾ کے الفاظ آئے ہیں یعنی زلیخا کے گھر والوں میں سے ایک گواہ نے گواہی دی۔ حالانکہ موقعہ پر کوئی گواہ موجود نہ تھا۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ شہادت ایک شیر خواربچہ نے دی تھی مگر اس روایت کی سند درست نہیں۔ دوسرے یہ کہ اگر یہ روایت صحیح تسلیم کی جائے تو یہ معجزہ کی صورت ہوگی اور معجزہ کی صورت میں عقلی دلیل دینے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ تیسرے یہ کہ جس صحیح روایت میں تین شیر خوار بچوں کے بولنے کا ذکر ہے وہاں اس بچے کا ذکر مفقود ہے۔ لہٰذا یہ روایت ہر لحاظ سے ناقابل اعتماد ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ قرینہ کی شہادت تھی۔ زلیخا کے جسم یا اس کے کپڑوں پر کوئی ایسی علامت موجود نہ تھی جس سے زنا بالجبر کا قیاس کیا جا سکتا ہے۔ لے دے کے ایک یہ کہ یوسف کی قمیص ہی تھی جو پھٹ گئی تھی۔ جس سے یہ قیاس کیا گیا۔ ایسا قرینہ یا موقعہ کی شہادت شرعاً معتبر ہے اور ہر عقلمند آدمی ایسے قرینہ کی شہادتوں سے نتیجہ اخذ کرسکتا ہے اور ہمارے ہاں کسی حادثہ کے موقع پر تفتیشی افسر جائے وقوع کا نقشہ مرتب کرتے ہیں جو قرینہ کی شہادت کا کام دیتے ہیں۔ قرینہ کی شہادت کی واضح مثال یہ ہے کہ اگر کسی شخص کے منہ سے شراب کی بو آرہی ہو تو سمجھ لیا جاتا ہے کہ اس نے شراب پی ہے۔ یہ قرینہ کی شہادت ہے۔ کیونکہ اسے شراب پیتے کسی نے دیکھا نہیں ہوتا۔