وَجَاءُوا عَلَىٰ قَمِيصِهِ بِدَمٍ كَذِبٍ ۚ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْرًا ۖ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ ۖ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ
اور وہ یوسف کی قمیص پر جھوٹ موٹ کا خون بھی لگا کر لائے۔ یعقوب نے کہا : (بات یوں نہیں) بلکہ تم لوگوں نے ایک (بری) بات کو بنا سنوار لیا ہے۔[١٥] خیر اب صبر ہی بہتر [١٦] ہے اور جو کچھ تم بیان کرتے ہو اس کے متعلق اللہ سے ہی مدد چاہتا ہوں
[١٥] اناڑی مجرم :۔ سیدنا یعقوب علیہ السلام ان کی طرف سے پہلے ہی مشکوک تھے۔ جب قمیص کو دیکھا تو انھیں پختہ یقین ہوگیا کہ یہ سب مکر اور فریب کاری ہے۔ کیونکہ قمیص کسی جگہ سے بھی نوچی ہوئی یا پھٹی ہوئی نہ تھی۔ ان نو آموز مجرموں کو یہ خیال ہی نہ آیا کہ اگر قمیص کو خون لگانا ہی ہے تو اسے پہلے بے ترتیبی سے کچھ پھاڑ بھی لیں تاکہ وہ کسی درندے کی نوچی ہوئی معلوم ہوسکے۔ یہ قمیص دیکھ کر سیدنا یعقوب علیہ السلام کہنے لگے وہ بھیڑیا تو بڑا سمجھدار ہوگا جس نے پہلے آرام سے یوسف کی قمیص کو اتارا پھر انھیں پھاڑ کھانے کے بعد کچھ لہو بھی اس پر لگا دیا۔ حقیقت حال کا تو اللہ ہی کو معلوم ہے۔ مگر معلوم یہی ہوتا ہے کہ تم نے یوسف کو کہیں گزند پہنچایا ہے یا غائب کردیا ہے اور تمہاری یہ آہ و بکا اور قمیص کو خون آلود کرکے دکھانا اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کے لیے ملمع سازیاں ہیں۔ [١٦] صبر جمیل ایسا صبر ہے کہ مصیبت پڑنے پر انسان اسے ٹھنڈے دل سے برداشت کر جائے جزع فزع نہ کرے نہ ہی کسی دوسرے سے اس کا شکوہ شکایت کرے۔ یعنی سیدنا یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے یہ افسانہ سننے کے بعد ان سے کچھ تعرض نہ کیا نہ انھیں برا بھلا کہا۔ کہیں وہ کوئی اور غلط حرکت نہ کر بیٹھیں۔ اگر کہا تو صرف یہی کہا کہ میری فریاد تو اللہ ہی سے ہے اور میں اسی سے مدد چاہتا ہوں۔