قَالُوا يَا أَبَانَا إِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَكْنَا يُوسُفَ عِندَ مَتَاعِنَا فَأَكَلَهُ الذِّئْبُ ۖ وَمَا أَنتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ
کہنے لگے : ہم دوڑ کے مقابلہ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھتے گئے اور یوسف [١٤] کو ہم نے اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تھا اتنے میں ایک بھیڑیا آیا اور اسے کھا گیا اور آپ تو ہماری بات پر یقین نہیں کریں گے خواہ ہم سچے ہی ہوں
[١٤] جنگل میں برادران یوسف کے مشاغل :۔ جنگل میں برادران یوسف کے مشاغل بکریاں چرانے کے علاوہ دو قسم کے تھے اور یہ دونوں ہی ان کے پیشہ سے تعلق رکھتے تھے۔ ایک بھاگ دوڑ کا مقابلہ تاکہ بوقت ضرورت کسی حملہ آور بھیڑیئے کا تعاقب کرکے اسے بھگا سکیں اور دوسرے تیر اندازی‘ اور اس سے بھی مقصد کسی حملہ آور درندے کو تیر کا نشانہ بنا کر اسے ختم کردینا تھا جب وہ سیدنا یوسف علیہ السلام کو اپنی سمجھ کے مطابق ٹھکانے لگا چکے تو اب سوال یہ تھا کہ واپس جاکر باپ کو کیا جواب دیں جو پہلے ہی ان پر اعتماد نہیں کر رہا تھا وہ کوئی عادی مجرم تو تھے نہیں، جو فریب، مکاری اور بہانہ سازی میں مہارت رکھتے ہوں، فقط حسد اور انتقام کی آگ نے اس فعل پر برانگیختہ کردیا تھا۔ لہٰذا انھیں اس بات کے سوا کوئی بہانہ نہ سوجھا جس کی طرف ان کے باپ نے اشارہ کیا تھا چنانچہ انہوں نے سیدنا یوسف علیہ السلام کی قمیص اتاری۔ ایک ہرن یا بکری کو ذبح کیا۔ اس کے خون سے قمیص کو آلودہ کیا اور کافی رات گئے اندھیرے میں روتے دھوتے اور آہ و بکا کرتے گھر واپس آئے اور باپ کو بتایا کہ ہم آپس میں بھاگ دوڑ کے مقابلہ میں مشغول تھے اور یوسف کو اپنے کپڑوں اور سامان وغیرہ کے پاس بٹھا گئے تھے جب ہم دور نکل گئے تو ایک بھیڑیا آیا جس نے یوسف کو پھاڑ کھایا اور اپنے اس ڈرامہ کو سچ ثابت کرنے کے لیے سیدنا یوسف علیہ السلام کی خون آلودہ قمیص بھی پیش کردی۔