وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ
نہ ہی ان لوگوں کی طرف جھکنا [١٢٥] جنہوں نے ظلم کیا ورنہ تمہیں بھی (دوزخ کی) آگ آلپٹے گی پھر تمہیں کوئی ایسا سرپرست نہ ملے گا جو اللہ سے تمہیں بچا سکے نہ ہی کہیں سے تمہیں مدد پہنچے گی
[١٢٥] کافروں سے سمجھوتہ یا دوستی کی ممانعت :۔ پہلی آیت میں ہدایات ایجابی قسم کی تھیں اور اس آیت میں سلبی قسم کی ہیں اور یہ بھی ایمان کا تقاضا ہیں یعنی اپنے مخالفوں اور اسلام دشمنوں سے دین کی باتوں میں کسی بات پر لچک پیدا نہ کرنا، نہ ان سے سمجھوتہ کیا جائے اور نہ ہی ان میں سے کسی کو دوست سمجھا یا بنایا جائے۔ اگر ان میں سے تم لوگوں نے کوئی کام بھی کیا تو وہ تمہیں بھی لے ڈوبیں گے اس صورت میں تم اللہ کی گرفت سے بچ نہ سکو گے اور نہ ہی اللہ کے سوا کوئی دوسری طاقت تمہاری کچھ مدد کرسکے گی۔