سورة یونس - آیت 90

وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُهُ بَغْيًا وَعَدْوًا ۖ حَتَّىٰ إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنتُ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور ہم نے بنی اسرائیل کو (جب) سمندر سے پار گزار دیا تو فرعون اور اس کے لشکروں نے از راہ ظلم و سرکشی ان کا تعاقب کیا۔ حتیٰ کہ جب فرعون ڈوبنے لگا تو بولا : میں اس بات پر ایمان [١٠٠] لاتا ہوں کہ ’’الٰہ صرف وہی ہے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں اس کا فرمانبردار ہوتا ہوں‘‘

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٠٠] جن حالات میں موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر نکلے تھے اور جس طرح بعد میں فرعون اور اس کے لشکر نے ان کا تعاقب کیا تھا نیز دریا کے پھٹنے، بنی اسرائیل کے بخیر و عافیت پار اتر جانے اور فرعون اور اس کے لشکر کے اس دریا میں غرق ہونے کی تفصیل پہلے سورۃ اعراف آیت نمبر ١٣٦ میں گزر چکی ہے۔ یہاں صرف یہ بتلانا مقصود ہے کہ فرعون کو جب موت سامنے نظر آگئی تو کہنے لگا کہ ’’فی الواقع رب میں نہیں تھا بلکہ حقیقی معبود وہی ہے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں میں بھی اب اس پر ایمان لاتا ہوں اور اس کا فرمانبردار بن کر رہوں گا‘‘ فرعون کا یہ اقرار دراصل اقتدار سے اپنی دستبرداری کا اعلان تھا بشرطیکہ اسے موت سے نجات مل جائے اور یہ وہی بات ہے جس کا موسیٰ علیہ السلام نے اپنی دعا میں ذکر کیا تھا کہ ان کے دل اس قدر سخت ہوچکے ہیں کہ جب تک کوئی سخت عذاب نہ دیکھ لیں ایمان لانے پر تیار نہ ہوں گے۔