سورة یونس - آیت 45

وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ كَأَن لَّمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِّنَ النَّهَارِ يَتَعَارَفُونَ بَيْنَهُمْ ۚ قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِلِقَاءِ اللَّهِ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور جس دن اللہ انہیں جمع کرے گا (تو وہ یوں محسوس کریں گے) جیسے (دنیا میں) دن کی صرف ایک ساعت ہی رہے ہوں۔ وہ ایک دوسرے کو پہچانتے [٦٠] ہوں گے۔ جن لوگوں نے ہماری ملاقات کو جھٹلا دیا تھا وہی خسارہ میں رہے اور راہ راست [٦١] پر نہ آئے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٦٠] قیامت کے دن کی مدت پچاس ہزار سال ہے اس کے مقابلہ میں انہیں اپنی دنیا کی زندگی یوں محسوس ہوگی کہ بس چند گھنٹے ہی دنیا میں گزارے تھے اس دن وہ ایک دوسرے کو ایسے ہی پہچانتے ہوں گے جیسے دنیا میں پہچانتے تھے مگر کوئی کسی کے کام نہ آسکے گا ہر ایک کو بس اپنی اپنی ہی پڑی ہوگی بلکہ ایک دوسرے سے اپنے کسی دکھ سکھ اور ہمدردی کی بات چیت کے بھی روادار نہ ہوں گے اور اگر اپنا کوئی رشتہ دار نظر آئے گا تو اس سے راہ فرار اختیار کرنے کی کوششیں کریں گے بعض علماء نے ﴿یَتَعَارَفُوْنَ بَیْنَھُمْ ﴾ کو دنیوی زندگی سے متعلق کرکے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ انہیں ایسا محسوس ہوگا کہ وہ دنیا میں بس چند گھنٹے ایک دوسرے کی جان پہچان کے لیے ٹھہرے تھے اور حقیقی زندگی کا آغاز تو اب ہو رہا ہے۔ [٦١] اس لیے کہ نتیجہ ان کی توقع کے خلاف نکلا اور اس دن کے لیے کچھ تیاری نہ کی تھی اور ساری زندگی دنیا کی دلچسپیوں میں گزار دی تھی ان لوگوں کو اس دن واضح طور پر معلوم ہوجائے گا کہ وہ دنیا میں غلط راستے پر پڑے ہوئے تھے اور یوم آخرت سے انکار کے نتیجہ نے انہیں راہ راست پر آنے ہی نہ دیا۔