قُلْ هَلْ مِن شُرَكَائِكُم مَّن يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ ۚ قُلِ اللَّهُ يَهْدِي لِلْحَقِّ ۗ أَفَمَن يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ أَحَقُّ أَن يُتَّبَعَ أَمَّن لَّا يَهِدِّي إِلَّا أَن يُهْدَىٰ ۖ فَمَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ
آپ ان سے پوچھئے : تمہارے شریکوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو حق کی طرف رہنمائی کرسکے؟ آپ کہئے اللہ ہی حق کی طرف رہنمائی [٥٠] کرتا ہے۔ بھلا وہ جو حق کی طرف رہنمائی کرے وہ اتباع کا زیادہ حقدار ہے یا وہ جو خود بھی راہ نہیں پاسکتا الا یہ کہ اسے راہ بتائی جائے؟ پھر تمہیں کیا ہوگیا ہے۔ یہ تم کیسے فیصلے کرتے ہو؟
[٥٠] ہدایت انسان کی اہم ضرورت ہے اور وہ صرف اللہ ہی دے سکتا ہے :۔ ہدایت حق سے مراد زندگی گزارنے کا وہ صحیح راستہ ہے جس سے انسان کو ہر شعبہ حیات مثلاً تہذیب، اخلاق، تمدن و معاشرت، حکومت و سیاست، معرفت و روحانیت، معیشت و کسب حلال وغیرہ کے متعلق ایسے اصول بتلا دیئے جائیں جن میں فرد اور معاشرہ میں سے ہر ایک کے حقوق کی پوری پوری نگہداشت ملحوظ رکھی گئی ہو اور ظاہر ہے کہ ایسی ہدایت، بے جان اور بے سمجھ معبود تو کجا سمجھ دار معبود بھی نہیں دے سکتے۔ ایسی جامع ہدایات کے لیے جس قدر وسیع علم و حکمت کی ضرورت ہے وہ اللہ کے علاوہ کسی کے پاس موجود نہیں اور اگر کوئی انسان یا سربراہ مملکت یا کوئی ادارہ ایسی ہدایات دینا بھی چاہے تو اس پر اس کی اپنی قوم اور اپنے ماحول کے تاثرات و تعصبات کی چھاپ ضرور موجود ہوگی بس اللہ ہی کی ایک ایسی ذات ہے جس کی نظروں میں سب مخلوق اور سارے انسان یکساں ہیں لہٰذا وہی ایسی ہدایات اور احکام دینے کا حقدار ہے۔ رہے معبودان باطل اور اللہ کے سوا جتنے بھی معبود ہیں وہ سب باطل ہی ہوتے ہیں تو ان کے متعلق مشرکین کو بھی یہ اعتراف ہے کہ وہ ایسی ہدایت نہیں دے سکتے۔ اور کسی کو ہدایت دینا تو درکنار ان معبودوں میں سے ذوی العقول بھی خود ہدایت کے محتاج ہیں پھر کیا ایسے اللہ کی اتباع کرنا چاہیے جو فی الواقع ہدایت حق دینے کا حق دار ہے یا ان کی جو خود بھی اپنے لیے ہدایت کی راہ نہیں پاسکتے؟ مندرجہ بالا سوالات سے یہ معلوم ہوا کہ انسان کی ضروریات دو طرح کی ہیں۔ ایک یہ کہ اس کا معبود ایسا ہونا چاہیے جو اس کا ملجا و ماویٰ ہو، دعاؤں کو سننے والا، انہیں قبول کرنے والا، حاجات کو پورا کرنے والا، مشکلات سے نجات دینے والا ہو اور اس پر پوری طرح بھروسہ کیا جاسکے اوپر کے سوالات نے یہ فیصلہ کردیا کہ اللہ کے سوا ایسی کوئی ذات نہیں ہے۔ انسان کی دوسری اہم ضرورت یہ ہے کہ اس کا کوئی ایسا رہنما ہونا چاہیے جو دنیا میں زندگی بسر کرنے کے صحیح اصول بتائے تاکہ انسانیت تجربوں اور ناکامیوں سے ہی دو چار نہ ہوتی رہے۔ اس آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ ایسی ذات بھی اللہ کے سوا دوسری کوئی نہیں ہوسکتی لہٰذا اللہ کے سوا کوئی بھی معبود نہ اس قابل ہے کہ اس کی پرستش کی جائے اور نہ اس قابل ہے کہ اس کی اتباع کی جائے ان حقائق کی وضاحت کے بعد صرف ضد اور ہٹ دھرمی ہی رہ جاتی ہے جس کی بنا پر انسان مشرکانہ مذاہب اور لادینی اصول تمدن و اخلاق و سیاست سے چمٹا رہے۔