وَيَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِينَ أَشْرَكُوا مَكَانَكُمْ أَنتُمْ وَشُرَكَاؤُكُمْ ۚ فَزَيَّلْنَا بَيْنَهُمْ ۖ وَقَالَ شُرَكَاؤُهُم مَّا كُنتُمْ إِيَّانَا تَعْبُدُونَ
اور جس دن ہم سب کو اکٹھا کردیں گے پھر جن لوگوں نے شرک کیا تھا انہیں ہم کہیں گے کہ : ’’تم اور تمہارے شریک اپنی اپنی جگہ پر ٹھہرے رہو‘‘ پھر ہم انہیں الگ الگ [٤١] کردیں گے تو ان کے بنائے [٤٢] ہوئے شریک انہیں کہیں گے کہ : تم تو ہماری بندگی کرتے [٤٣] ہی نہیں تھے
[٤١] زَیّل کے معنی کسی چیز کو اس کے اصل مقام سے ہٹا کر اس طرح الگ کردینا ہے جس سے وہ دوسروں سے ممیز ہوسکے یعنی میدان محشر میں پہلے تو ہم مشرکوں کو اور ان کے معبودوں کو کہیں گے کہ تم اپنی جگہ کھڑے رہو پھر عبادت کرنے والوں کو الگ اور معبودوں کو الگ ایک دوسرے کے آمنے سامنے لا کھڑا کریں گے تاکہ ایک دوسرے کو روبرو ہو کر سوال و جواب کرسکیں۔ [٤٢] ان میں وہ سب اشیاء شامل ہیں جن کی دنیا میں پوجا کی جاتی رہی ہے اس میں شجر و حجر بھی شامل ہیں۔ مویشی بھی، جیسے گائے بیل، فرشتے بھی، انبیاء بھی جیسے عیسیٰ علیہ السلام اور عزیر علیہ السلام اور بزرگان دین اور مشائخ اور پیران طریقت بھی۔ دیوی دیوتا اور ان کے مجسمے بھی۔ غرض جس جس چیز کی بھی کسی نہ کسی رنگ میں عبادت کی جاتی رہی ہے سب کو وہاں اکٹھا کیا جائے گا۔ [٤٣] اہل قبور پکارنے والوں کی پکار نہیں سنتے :۔ معبودوں میں کچھ ایسی اشیاء ہیں جو بے جان ہیں جیسے پتھر کے بت اور کچھ بے زبان جیسے سورج، چاند ستارے، سانپ اور بیل وغیرہ ان سب چیزوں کو اللہ تعالیٰ قوت گویائی عطا کر دے گا اور وہ اپنے عبادت گزاروں کے سامنے ان کی عبادت کا انکار کردیں گے کیونکہ ان میں نہ جان ہوتی ہے نہ عقل۔ وہ کیا جانیں کہ عبادت کیا ہے اور شرک کیا ؟ لہٰذا وہ مکمل لاعلمی ظاہر کرنے میں فی الواقع حق بجانب ہوں گے رہے وہ معبود جو ذوی العقول سے تعلق رکھتے ہیں مثلاً فرشتے، انبیاء اور اولیاء جن کی غیر موجودگی میں ان کی عبادت کی جاتی رہی تھی ان کے انکار سے سماع موتیٰ کا ایک اہم مسئلہ حل ہوجاتا ہے جو اکثر مقامات پر شرک کی بنیاد بنا ہوا ہے؟ قبر پرستی کا رواج محض اس غلط عقیدہ کی وجہ سے پڑگیا ہے کہ مردے سنتے ہیں اس آیت اور بعض دوسری آیات میں واضح طور پر اس کی تردید کی گئی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھئے میری تصنیف '' روح عذاب قبر اور سماع موتیٰ''