وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ ۙ قَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هَٰذَا أَوْ بَدِّلْهُ ۚ قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِي ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۖ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ
اور جب ان (کافروں) پر ہماری واضح آیات پڑھی جاتی ہیں جو ہم سے ملنے کی توقع [٢٢] نہیں رکھتے تو کہتے ہیں: ’’اس قرآن کے سوا کوئی اور قرآن لاؤ یا اس میں [٢٣] تبدیلی کردو‘‘ آپ ان سے کہئے: ’’مجھے یہ حق نہیں کہ میں اپنی طرف سے اس میں تبدیلی [٢٤] کر دوں۔ میں تو اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کی جاتی ہے۔ اگر میں اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں تو میں بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں‘‘
[٢٢] کفار مکہ اپنے آپ کو ملت ابراہیمی کا پیروکار سمجھتے تھے وہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے تو پوری طرح قائل تھے مگر الوہیت کی صفات میں اپنے مختلف دیوی دیوتاؤں کو بھی شریک کرلیا تھا اور عقیدہ آخرت کے تو سخت منکر تھے۔ انکار آخرت کا عقیدہ کس دور میں ان کے مذہب میں شامل ہوا تھا یہ معلوم نہیں ہوسکا۔ [٢٣] کفار کی طرف سے قرآن میں تبدیلی کا مطالبہ :۔ گویامشرکین قریش یہ سمجھتے تھے کہ یہ قرآن اللہ کی طرف سے نازل شدہ نہیں بلکہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہی تصنیف کردہ ہے لہٰذا اپنے اس زعم باطل کو بنیاد بنا کر انہوں نے دو مطالبات پیش کردیئے ایک یہ کہ اس قرآن کے بجائے کوئی ایسا قرآن لاؤ جو ہمارے لیے بھی قابل قبول ہو اور دوسرا یہ کہ اگر سارا قرآن دوسری قسم کا نہیں لاسکتے تو کم از کم اس میں کچھ ترمیم و تنسیخ کردو جس کی بنا پر ہم تمہارے ساتھ صلح و سمجھوتہ کی راہ استوار کرسکیں۔ بالفاظ دیگر قرآن میں سے اس حصہ کو حذف کر دو جو بت پرستی وغیرہ سے متعلق ہے اس کے عوض ہماری طرف سے تم لوگوں کو عام اجازت ہوگی کہ جیسے اور جب چاہو اپنے اللہ کو پکارو اور اسی کی عبادت کرو وغیرہ وغیرہ۔ اور یہی وہ نظریہ ہے جسے آج کل بھی مختلف مذاہب کے درمیان صلح و آشتی کی بنیاد قرار دیا جارہا ہے ’’یعنی اپنی چھوڑو نہ اور دوسروں کو چھیڑو نہ‘‘ اور یہی وہ فاسد نظریہ ہے جس کے متعلق اقبال نے کہا تھا : باطل دوئی پرست ہے حق لاشریک ہے......... شرکت میانہ حق باطل نہ کر قبول [٢٤] اس جملہ میں کفار کے دونوں نظریات کی تردید کردی گئی یعنی یہ قرآن میری اپنی تصنیف نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر وحی کیا گیا ہے۔ لہٰذا یہ بات میرے اختیار سے باہر ہے کہ میں کوئی اور قرآن لاؤں نیز میں اس وحی کی پیروی کا پابند ہوں جو اس قرآن میں ہے لہٰذا مجھے ایسا کوئی اختیار نہیں کہ اس میں کچھ ترمیم و تنسیخ کرکے اسے اس قابل بناسکوں جس کی بنیاد پر ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی سمجھوتہ یا درمیانی راہ طے پاسکے۔ نیز اگر میں کوئی ایسا کام کر گزروں درآں حالیکہ میں ہی اس قرآن کی اتباع کا داعی ہوں تو پھر مجھ سے بڑھ کر مجرم کون ہوسکتا ہے؟ میں تو اس تصور اور پھر اس کے نتیجہ میں عذاب اخروی کے تصور سے ہی کانپ اٹھتا ہوں۔