سورة یونس - آیت 10

دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَتَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَامٌ ۚ وَآخِرُ دَعْوَاهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

وہاں ان کی پکار یہ ہوگی ’’اے اللہ [١٤] تو پاک ہے‘‘اور ان کی آپس میں دعا [١٥] ہوگی ’’تم پر سلامتی ہو‘‘ اور ان کا خاتمہ کلام یہ ہوگا کہ’’سب طرح کی تعریف [١٦] اس اللہ کے لئے ہے جو سب جہانوں کا پروردگار ہے‘‘

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٤] یعنی جب اہل جنت کو جب کسی چیز کی خواہش یا طلب ہوگی تو وہ براہ راست اس خواہش کا مطالبہ نہیں کریں گے۔ بلکہ اس کی بجائے سبحانک اللھم یا سبحان اللہ کہیں گے تو فرشتے ان کی خواہش کے مطابق وہ چیز حاضر کردیں گے۔ دنیا میں بھی مہذب معاشرہ میں یہ دستور چلتا ہے کہ جب کوئی مہمان کسی چیز کو پسند کرکے صرف اس چیز کی تعریف کردے تو غیور میزبان کوشش کرتا ہے کہ وہ چیز اس مہمان کو ہدیہ کردے۔ [١٥] جیسا کہ اس دنیا میں بھی انہیں ایک دوسرے کو سلام کہنے کی عادت تھی اور ملاقات کے وقت سلام کا یہ طریقہ اللہ کے ہاں اتنا پسندیدہ ہے کہ فرشتے بھی اہل جنت کو سلام کہیں گے بلکہ اللہ تعالیٰ خود بھی انہیں سلام کہا کریں گے جیسا کہ سورۃ یٰسین کی آیت نمبر ٥٨ ﴿ سَلٰمٌ ۣ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ﴾میں مذکور ہے۔ [١٦] یعنی جب اہل جنت کی خواہش کی اشیاء انہیں مہیا کردی جائیں گی اور وہ ان سے استفادہ کرلیں گے یا آپس میں سلام و دعا کے بعد محو گفتگو ہوں گے ان کا آخری طرز عمل یا اختتام یہ ہوگا کہ وہ اللہ کی تسبیح و تقدیس میں مشغول ہوجائیں گے جس سے وہ دنیا میں مانوس تھے۔