سورة التوبہ - آیت 99

وَمِنَ الْأَعْرَابِ مَن يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَيَتَّخِذُ مَا يُنفِقُ قُرُبَاتٍ عِندَ اللَّهِ وَصَلَوَاتِ الرَّسُولِ ۚ أَلَا إِنَّهَا قُرْبَةٌ لَّهُمْ ۚ سَيُدْخِلُهُمُ اللَّهُ فِي رَحْمَتِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور کچھ اعرابی ایسے بھی ہیں [١١١] جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کریں اسے قرب الٰہی اور دعائے رسول کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ سن لو۔ یہ واقعی ان کے لئے قرب الٰہی کا ذریعہ ہے۔ جلد ہی اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔ اللہ تعالیٰ یقیناً معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١١١] بدوی مومنوں کا کردار :۔ یعنی یہ بدو لوگ بھی سب ایک جیسے نہیں۔ ان میں سے بھی کچھ حقیقی مومن ہیں۔ قرآن کی معجزانہ تاثیر اور آپ کی تعلیم سے کافی حد تک متاثر ہوچکے ہیں اور اللہ کی راہ میں رغبت اور خوش دلی سے خرچ کرتے ہیں اور خرچ کرتے وقت دو مقاصد ان کے پیش نظر ہوتے ہیں۔ ایک قرب الٰہی کا حصول دوسرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا لینے کی آرزو۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمائی تھی کہ جب آپ صدقہ وصول کریں تو صدقہ دینے والے کو دعا دیا کریں۔ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا انکے لیے باعث تسکین ہوتی ہے۔ اور اس دعا کا ثمرہ بھی اللہ کی رحمت اور قرب الٰہی کا ذریعہ ہی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو بشارت دی ہے کہ واقعی ان لوگوں کا دیا ہوا صدقہ قرب الہٰی کا ذریعہ بن جاتا ہے اور وہ اللہ کی رحمت کے مستحق قرار پاتے ہیں۔