سورة التوبہ - آیت 81

فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلَافَ رَسُولِ اللَّهِ وَكَرِهُوا أَن يُجَاهِدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَالُوا لَا تَنفِرُوا فِي الْحَرِّ ۗ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا ۚ لَّوْ كَانُوا يَفْقَهُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

پیچھے رہ جانے والے منافق اللہ کے رسول کا ساتھ نہ دینے اور پیچھے گھر بیٹھ رہنے [٩٦] پر خوش ہیں۔ انہوں نے یہ پسند نہ کیا کہ اپنے اموال اور جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کریں اور (دوسروں سے) کہنے لگے کہ : ’’ایسی گرمی میں (جہاد کے لئے) نہ نکلو‘‘ آپ ان سے کہئے : ’’دوزخ کی آگ اس سے بہت زیادہ گرم ہے‘‘ کاش! یہ لوگ کچھ سمجھتے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٩٦] منافقوں کا غزوہ تبوک میں شامل ہونے والوں کی حوصلہ شکنی :۔ منافق بظاہر تو اللہ اور رسول پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتے تھے لیکن اس دعویٰ کی تصدیق کے لئے جن اعمال صالحہ کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان میں مفقود تھے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے نہ ان کے دعوؤں کو قابل اعتبار سمجھا اور نہ ان کی قسموں کو۔ اسی وجہ سے متعدد مقامات پر انہیں جھوٹا کہا اور بعض دوسرے مقامات پر کافر قرار دیا ور کہیں دونوں صفات کو ملا کر بیان کیا۔ اپنے دعوٰی کے خلاف اعمال میں سے ہی ایک یہ تھا کہ ان میں سے کچھ لوگ تو اپنے اموال اور جانوں سے جہاد کرتے ہی نہ تھے اور جو جاتے تھے وہ بھی بادل نخواستہ جاتے تھے تاکہ مسلمان انہیں منافق نہ سمجھنے لگیں اور ایک صفت ان میں مشترکہ یہ تھی کہ جہاد پر جانے والوں کی حوصلہ شکنی کیا کرتے تھے۔ غزوہ تبوک کے اعلان جہاد کے وقت چونکہ گرمی زوروں پر تھی اور سفر بھی طویل اور تکلیف دہ تھا۔ لہٰذا انہوں نے اپنے ساتھیوں کو اسی وجہ سے جہاد سے روکنا شروع کردیا۔ جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس گرمی کا علاج تو تم نے سوچ لیا مگر اس کے بدلے جہنم کی آگ جو اس گرمی سے ستر گنا زیادہ گرم ہوگی اس کا کیا علاج کرو گے؟