وَمِنْهُم مَّن يَقُولُ ائْذَن لِّي وَلَا تَفْتِنِّي ۚ أَلَا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا ۗ وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَافِرِينَ
ان میں سے کوئی ایسا ہے جو کہتا ہے ''مجھے رخصت دیجئے اور فتنہ [٥٣] میں نہ ڈالئے'' سن رکھو! فتنہ میں تو یہ لوگ پہلے ہی پڑے ہوئے ہیں اور جہنم ایسے کافروں کو گھیرے ہوئے ہے
[٥٣] جد بن قیس منافق کا عذر لنگ :۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جدبن قیس منافق کو رومی کافروں سے جہاد کے لیے کہا تو کہنے لگا ’’اگرچہ میری کئی بیویاں ہیں مگر میں ایک حسن پرست آدمی ہوں اور روم کی عورتیں خوبصورت ہوتی ہیں۔ میں ڈرتا ہوں کہ کسی فتنہ میں نہ پڑجاؤں اور میری اس عادت کو میری قوم جانتی ہے لہٰذا آپ مجھے اپنے ساتھ لے جانے سے معاف فرمائیے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یہ دیا کہ یہ بدبخت فتنہ میں تو پہلے پڑچکا ہے اب اگر اپنی باطنی خباثت کو چھپا کر اس پر ظاہری تقدس اور تقویٰ کا پردہ ڈال رہا ہے تو یہ فتنہ نہیں تو کیا ہے۔ اور دوسرا فتنہ وہ ہے جس میں یہ سارے ہی منافق پڑگئے ہیں۔ مسلمان تو جہاد کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور یہ منافق اس فتنہ میں مبتلا ہیں کہ اب کریں تو کیا کریں، ان کے لیے اس سے بڑا فتنہ کیا ہوگا کہ صاف انکار بھی نہیں کرسکتے اور جانے کو جی بھی نہیں چاہتا۔ ان کے لیے تو نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن والا معاملہ بن گیا ہے۔