سورة الانفال - آیت 44

وَإِذْ يُرِيكُمُوهُمْ إِذِ الْتَقَيْتُمْ فِي أَعْيُنِكُمْ قَلِيلًا وَيُقَلِّلُكُمْ فِي أَعْيُنِهِمْ لِيَقْضِيَ اللَّهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا ۗ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور (یاد کرو) جب تم (دشمن سے ملے) اللہ تعالیٰ نے تمہاری نظروں میں دشمن کی تعداد تھوڑی دکھلائی اور دشمن کی نظروں میں تمہیں تھوڑا کرکے پیش کیا تاکہ اللہ تعالیٰ وہ کام پورا کرے جس کا ہونا [٤٩] مقدر تھا اور سب کاموں کا انجام تو اللہ ہی کے پاس ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٤٩] آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خالی مربع کی صورت میں صف بندی :۔ یعنی تم مسلمان کافروں کی تعداد اصل تعداد سے تھوڑی سمجھ رہے تھے اور دشمن یہ سمجھتا تھا کہ مسلمان ہماری نسبت بہت تھوڑے ہیں۔ اس طرح فریقین کے حوصلے بڑھ گئے اور لڑنے کے لیے تیار ہوگئے۔ اس طرح جو کام مشیت الٰہی میں ہونا مقدر تھا۔ اس کے اسباب پیدا ہوتے گئے اور وہ بالآخر ہو کے رہا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب دونوں لشکر ابھی صف آرا نہ ہوئے تھے اور جب صف آرا ہوگئے تو اس وقت کافروں کو مسلمانوں کی تعداد ان کی اصل تعداد سے دگنی نظر آنے لگی تھی۔ جیسا سورۃ آل عمران میں مذکور ہے۔ ﴿یَّرَوْنَھُمْ مِّثْلَیْہِمْ رَاْیَ الْعَیْنِ ﴾اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک نہایت ماہرانہ جنگی تدبیر تھی کہ آپ نے صحابہ کی صف آرائی خالی مربع (Hollow Square) کی شکل میں کی تھی جس کی وجہ سے کافروں کو مسلمانوں کی تعداد فی الواقع دو گنا نظر آنے لگی تھی اور اس طرح ان کے حوصلے پست ہوجانا لازمی امر تھا۔ اور بعض علماء کا قول ہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب غزوہ بدر میں فرشتوں کا نزول ہوا تھا۔ میرے خیال میں تو یہ توجیہ درست نہیں کیونکہ فرشتے تو اکثر مسلمانوں کو بھی نظر نہیں آتے تھے۔ کافروں کو کیسے نظر آ سکتے تھے؟