سورة الانفال - آیت 42

إِذْ أَنتُم بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيَا وَهُم بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوَىٰ وَالرَّكْبُ أَسْفَلَ مِنكُمْ ۚ وَلَوْ تَوَاعَدتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِي الْمِيعَادِ ۙ وَلَٰكِن لِّيَقْضِيَ اللَّهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ۗ وَإِنَّ اللَّهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

جب تم (میدان جنگ کے) اس کنارے [٤٤] پر تھے اور وہ (دشمن) پرلے کنارہ پر تھے اور (ابوسفیان کا) قافلہ [٤٥] تم سے نیچے (ساحل کی طرف) اتر گیا تھا اور اگر تم دونوں (مسلمان اور کفار) باہم جنگ کا عہد [٤٦] و پیمان کرتے تو تم دونوں مقررہ وقت سے پہلوتہی کرجاتے۔ لیکن اللہ نے تو وہ کام پورا کرنا ہی تھا جو ہو کر رہنے والا تھا۔ تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے [٤٧] وہ دلیل کی بنا پر ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ بھی دلیل کی بنا پر زندہ رہے اور اللہ تعالیٰ یقیناً سننے والا اور جاننے والا ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٤٤] اس کنارے یا نزدیکی کنارے سے مراد وہ سمت ہے جو مدینہ کی طرف تھی اور پرلے کنارے سے مراد اس سے مخالف سمت ہے جو مکہ کی طرف تھی۔ [٤٥] جنگ بدر اضطراراً واقع ہوئی تھی :۔ یعنی مسلمان جب مدینہ سے نکلے تو جہاد کی غرض سے نہیں بلکہ تجارتی قافلہ پر حملہ کی غرض سے نکلے تھے۔ اسی وجہ سے غزوہ بدر سے پیچھے رہ جانے والے مسلمانوں پر کوئی مواخذہ نہیں اور کافر اس غرض سے نہیں نکلے تھے کہ جنگ لڑیں گے بلکہ اپنے قافلہ کو بچانے کی غرض سے نکلے تھے۔ اب اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ وہ قافلہ تو بچ بچا کر نکل آیا۔ اس طرح دونوں لشکروں کی آپس میں مڈ بھیڑ ہوگئی، اور یہ سب کچھ اللہ کی مشیت کے مطابق ہو رہا تھا۔ [٤٦] یعنی اگر کافر اور مسلمان آپس میں لڑائی کے لیے کوئی عہد و پیمان کرتے تو عین ممکن تھا کہ دونوں فریق یا کوئی ایک فریق وعدہ خلافی کر کے مقررہ وقت اور مقررہ جگہ پر نہ پہنچ سکتا یا پہنچنے سے راہ فرار اختیار کرجاتا اور اس طرح یہ معرکہ حق و باطل وقوع پذیر ہی نہ ہوتا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے حالات ہی ایسے پیدا کردیئے کہ یہ جنگ واقع ہو کے رہی۔ [٤٧] جنگ بدر حق وباطل میں فیصلہ کن معرکہ تھا :۔ یعنی مرنے والے کافر بھی اور زندہ رہنے والے بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ حق پر کون فریق تھا اور کس فریق کی اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی۔ یا اس کا مطلب یہ ہے کہ کافروں کا یہ انجام دیکھنے کے بعد پھر بھی جو کافر کفر پر ہی قائم رہنا چاہتا ہے۔ وہ اپنی ہی گور گردن پر رہے جو اسلام لانا چاہے تو وہ اللہ کی یہ واضح تائید دیکھ کر اسلام لائے اور اس کا اسی کو فائدہ ہوگا۔ بہرحال شرک و کفر کے باطل ہونے کا ایک جیتا جاگتا ثبوت اللہ تعالیٰ نے سب کو دکھلا دیا ہے۔