سورة الانفال - آیت 31

وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا قَالُوا قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَاءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هَٰذَا ۙ إِنْ هَٰذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور جب ان کافروں پر ہماری آیات پڑھی جاتی تھیں تو کہتے تھے: ’’ہم نے یہ کلام سن لیا۔ اگر ہم چاہیں تو ہم بھی ایسا [٣٢] کلام بناسکتے ہیں۔ یہ تو وہی پرانی داستانیں ہیں جو پہلے لوگ سناتے چلے آئے ہیں‘‘

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٢] نضر بن حارث کا قول کہ ہم بھی ایسا کلام لا سکتے ہیں :۔ یہ نضر بن حارث تھا جو روسائے قریش میں سے تھا اور فارس کی طرف تجارتی سفر کیا کرتا تھا وہ کہتا تھا کہ اس کلام کو ہم نے سن لیا ہے۔ اس میں سوائے قصے کہانیوں کے اور کیا رکھا ہے ہم چاہیں تو ایسا کلام لا سکتے ہیں۔ چنانچہ وہ فارس سے رستم و اسفند یار کے قصے اٹھا لایا اور کہنے لگا کہ قرآن میں عاد اور ثمود کے قصے ہیں اور میرے پاس رستم و اسفند یار کے قصے ہیں۔ لیکن اس کی اس بات کو اس کے ہم مشرب کافروں نے بھی تسلیم نہ کیا۔ کیونکہ جب قرآن نے ایک مرتبہ نہیں کئی مرتبہ کفار کو چیلنج کیا کہ اپنے تمام ادیبوں اور شاعروں کو اکٹھا کر کے قرآن جیسی ایک ہی سورت بنا لاؤ تو سب نے عاجزی کا اظہار کردیا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نضر بن حارث کا اپنا ادبی ذوق بھی انتہائی پست قسم کا تھا۔ قرآن کی ہدایات پر اس کی نظر پڑنا تو بڑی دور کی بات ہے۔