إِن تَسْتَفْتِحُوا فَقَدْ جَاءَكُمُ الْفَتْحُ ۖ وَإِن تَنتَهُوا فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَإِن تَعُودُوا نَعُدْ وَلَن تُغْنِيَ عَنكُمْ فِئَتُكُمْ شَيْئًا وَلَوْ كَثُرَتْ وَأَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ
(مکہ والو)! اگر تم فیصلہ ہی [١٨] چاہتے تھے تو وہ اب تمہارے پاس آچکا۔ اب اگر تم باز آجاؤ تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔ اور اگر پھر پہلے سے کام کرو گے تو ہم بھی ایسا ہی کریں گے اور تمہاری جمعیت تمہارے کچھ بھی کام نہ آسکے گی، خواہ وہ کتنی زیادہ ہو اور اللہ تو یقیناً ایمان والوں کے ساتھ ہے
[١٨] کافروں کو اپنی سرگرمیوں سے رک جانے کی نصیحت :۔ کفار مکہ مسلمانوں سے کہا کرتے تھے کہ اگر تم دعویٰ میں سچے ہو تو یہ فیصلہ کب ہوگا ؟ (٣٢ : ٢٨) یعنی ہمارے اور تمہارے درمیان کب فیصلہ ہوگا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کا خطاب انہیں ہزیمت خوردہ کافروں سے ہے کہ اب وہ فیصلہ آ چکا ہے۔ جسے تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو کہ کس طرح حالات کی ناسازی کے باوجود مسلمانوں کو معجزانہ طور پر فتح نصیب ہوئی ہے۔ لہٰذا اب بھی اگر راہ راست پر آجاؤ تو یہی بات تمہارے حق میں بہتر ہوگی اور اگر پھر تم نے پہلی سی نافرمانی، مخالفت اور سرکشی والی روش اختیار کی تو ہم پھر تمہیں اسی طرح سزا دیں گے اور جس طرح آج تمہارا لاؤ لشکر کسی کام نہیں آ سکا۔ آئندہ بھی نہیں آئے گا۔ وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا ساتھی اور حامی و ناصر خود ان کا پروردگار ہے۔ بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ مکہ سے روانگی کے وقت ابو جہل وغیرہ نے کعبہ کا پردہ پکڑ کر یہ دعا کی تھی کہ یا اللہ ہم دونوں فریقوں سے جو اعلیٰ و افضل ہے اسے فتح نصیب فرما اور فساد مچانے والے کو مغلوب کر۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرما کر کہ ’’اب فیصلہ تمہارے پاس آ چکا۔‘‘ اس بات کا فیصلہ کردیا کہ ان دونوں فریقوں میں اعلیٰ و افضل کون سا فریق تھا اور مفسد کون سا۔