وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِم بِآيَةٍ قَالُوا لَوْلَا اجْتَبَيْتَهَا ۚ قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ مِن رَّبِّي ۚ هَٰذَا بَصَائِرُ مِن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
اور جب آپ ان کے پاس کوئی معجزہ [٢٠١] نہ لائیں تو کہتے ہیں: تم نے خود ہی کوئی معجزہ کیوں نہ انتخاب کرلیا ؟ آپ ان سے کہئے : میں تو صرف اس چیز کی پیروی کرتا ہوں جو میرے پروردگار کی طرف سے مجھ پر وحی کی جاتی ہے۔ یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے بصیرت افروز دلائل ہیں اور ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں
[٢٠١] آپ پر قرآن تصنیف کرنے کا الزام اور اس کا جواب :۔ اس آیت سے موضوع سخن بدل گیا ہے اور اس میں کافروں کے ایک مطالبہ کا اور اس کے جواب کا ذکر ہے اگر اس آیت کا معنی قرآن کی کوئی آیت ہی کیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ جب کوئی قرآنی سورت یا آیات کے نازل ہونے میں دیر واقع ہوجاتی تو کافر کہنے لگتے کہ اپنی مرضی کی کوئی آیت تمہیں اب تک لے آنا چاہیے تھی اور ایسے استہزاء سے ان کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ پہلے جو قرآن تم ہمیں سناتے ہو وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ نہیں بلکہ تمہارا اپنا ہی تصنیف کردہ ہے لہٰذا اب اگر دیر ہوگئی تو کیا ہوا ؟ کچھ اور بھی اپنی پسندیدہ آیات تمہیں اب تک تصنیف کر کے پیش کردینا چاہئیں تھیں۔ اور اگر آیت کا معنی معجزہ لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ جس حسی معجزہ کے لانے کا ہم آپ سے مطالبہ کرچکے ہیں ان میں سے جو بات آپ کو پسند ہو اسی کے لیے آپ اللہ سے تعالیٰ کہیں کہ وہ ہمیں دکھلا دے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ انہیں واضح الفاظ میں بتلا دیجئے کہ معجزات دکھلانا میرا کام نہیں نہ میرا معجزات پر کوئی اختیار ہے میرا کام صرف یہ ہے کہ جو وحی مجھ پر نازل ہوتی ہے میں خود بھی اس کی پیروی کروں اور دوسروں کو بھی اس کی پیروی کی دعوت دوں اور اگر تم سوچو تو یہ قرآن بذات خود ایک بڑا معجزہ ہے جس میں ہر ہدایت کے متلاشی کے لیے بے شمار بصیرت افروز دلائل موجود ہیں اور چونکہ یہ کتاب دنیوی اور اخروی کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے لہٰذا یہ کتاب ہدایت ہونے کے علاوہ لوگوں کے لیے ایک بہت بڑی رحمت بھی ہے۔