وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا وَلَٰكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ ۚ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَث ۚ ذَّٰلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۚ فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ
اور اگر ہم چاہتے تو ان نشانیوں سے اس (کے درجات) کو بلند کردیتے مگر وہ تو پستی کی طرف جھک گیا اور اپنی خواہش کے پیچھے لگ گیا۔ ایسے شخص کی مثال کتے کی سی ہے کہ اگر تو اس پر حملہ کرے تو بھی ہانپتا ہے اور نہ کرے تو بھی ہانپتا ہے [١٧٧۔ الف] یہ ان لوگوں کی مثال ہے جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلا دیا۔ آپ ایسے قصے ان سے بیان کرتے رہئے شاید یہ لوگ کچھ غور و فکر کریں
[١٧٧۔ الف] ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے کتے کی دو حالتیں بیان فرمائیں ایک اضطراری دوسری اختیاری۔ یعنی ہر حال میں وہ زبان منہ سے باہر نکالے رکھتا اور ہانپتا رہتا ہے۔ دنیا کے کتے کی بھی یہی کیفیت ہوتی ہے ایک دفعہ جو شیطان کے پھندے میں آ گیا تو پھر اس کی حالت ہی یہ ہوجاتی ہے کہ اسے کوئی مجبوری ہو یا نہ ہو بہرحال وہ دنیا کے طمع کی طرف لپکتا ہے اور حرام و حلال یا جائز و ناجائز کی تمیز اس سے ختم ہوجاتی ہے۔ بعض مفسرین نے تورات کے حوالہ سے لکھا ہے کہ اس آیت کا روئے سخن بلعم بن باعوراء کی طرف ہے۔ یہ شخص بڑا عابد، زاہد اور مستجاب الدعوات تھا جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل موآب کے میدانوں میں شہر یریحو (اریحاء) کے مقابل اترے تو اس وقت بلق بن صفور موآبیوں کا بادشاہ تھا۔ شکست کے خوف سے اس نے بلعم کے پاس قاصد بھیجے کہ وہ آ کر ان پر بددعا کرے پہلے تو اس نے انکار کیا مگر لالچ میں پڑ کر آخر آنے پر راضی ہوگیا۔ بلعم بلق کے پاس گیا اور ایک پہاڑ پر چڑھ کر بنی اسرائیل کو دیکھا تو بنی اسرائیل کے حق میں لعنت کے بجائے بے ساختہ کلمات برکت نکل گئے (تورات۔ کتاب عدد باب ٢٣، ٢٤) مگر چونکہ اس کا ارادہ بددعا کا تھا لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس کو جو کرامات و برکات دی تھیں سب اس سے سلب ہوگئیں۔