سورة البقرة - آیت 105

مَّا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَلَا الْمُشْرِكِينَ أَن يُنَزَّلَ عَلَيْكُم مِّنْ خَيْرٍ مِّن رَّبِّكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

جو لوگ کافر ہیں خواہ وہ اہل کتاب سے ہوں یا مشرکین سے، ان میں سے کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ تم پر تمہارے پروردگار کی طرف سے کوئی بھلائی [١٢٤] نازل ہو۔ اور اللہ تو جسے چاہتا ہے اپنی رحمت سے خاص کرلیتا ہے اور وہ بڑا ہی فضل کرنے والا ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٢٤] یہود اور مشرکوں کا مسلمانوں کے مقابلہ میں گٹھ جوڑ :۔ یہودیوں کو اصل تکلیف تو یہ تھی کہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم ان میں کیوں مبعوث نہیں ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اولاد اسماعیل سے اور ایسی قوم میں پیدا ہوئے جنہیں یہود اپنے سے بہت کمتر اور حقیر سمجھتے تھے اور مشرکوں کو یہ تکلیف تھی کہ آپ خالصتاً ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دیتے تھے۔ جس کی زد ان پر، ان کے معبودوں پر، ان کے آباؤ اجداد پر اور ان کی چودھراہٹ پر پڑتی تھی۔ لہٰذا یہود اور مشرکین دونوں ہی پیغمبر اسلام، اسلام اور مسلمانوں کے شدید دشمن تھے۔ وہ مسلمانوں کے لیے کوئی بھلائی کی بات کیسے گوارا کرسکتے تھے، اور یہاں بھلائی اور رحمت سے مراد بالخصوص وہ احکام الہٰی ہیں جو مسلمانوں کی طرف نازل کئے جا رہے تھے۔ لہٰذا یہ دونوں فریق مسلمانوں کے خلاف متحد ہوجاتے تھے۔