وَإِذْ قِيلَ لَهُمُ اسْكُنُوا هَٰذِهِ الْقَرْيَةَ وَكُلُوا مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ وَقُولُوا حِطَّةٌ وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطِيئَاتِكُمْ ۚ سَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ
اور جب بنی اسرائیل سے کہا گیا تھا کہ اس بستی [١٦٥] میں آباد ہوجاؤ اور جہاں سے جی چاہے کھاؤ اور دعا کرتے رہو کہ ’’ہمیں معاف کر دے‘‘ اور دروازہ میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہونا تو ہم تمہاری خطائیں معاف کردیں گے اور اچھے کام کرنے والوں کو زیادہ بھی دیں گے
[١٦٥] یہ غالباً اریحا کا شہر تھا جو سب سے پہلے بنی اسرائیل کے ہاتھوں فتح ہوا یہاں انہیں آباد ہونے کا حکم دیا گیا اور آئندہ کے لیے لائحہ عمل بتلایا گیا اور ساتھ ہی ہدایت کی گئی کہ جب فاتحانہ انداز میں اس شہر میں داخلہ ہو تو اللہ کے حضور سجدہ کرتے ہوئے اس کا شکر بجا لاتے ہوئے اور اپنے لیے دعائے مغفرت کرتے ہوئے داخل ہونا۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فتح مکہ کے دن حکم ہوا تھا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سجدہ شکر ادا کیا۔ فتح مکہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں اللہ کے حضور عجز و انکساری پہلے سے بھی بڑھ گئی اور پہلے سے زیادہ اللہ کی عبادت کرنے لگے فتح کے بعد اپنے قدیمی دشمنوں سے انتقام لینے کے بجائے ان کے لیے عام معانی کا اعلان کردیا تھا۔