سورة الاعراف - آیت 142

وَوَاعَدْنَا مُوسَىٰ ثَلَاثِينَ لَيْلَةً وَأَتْمَمْنَاهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقَاتُ رَبِّهِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ۚ وَقَالَ مُوسَىٰ لِأَخِيهِ هَارُونَ اخْلُفْنِي فِي قَوْمِي وَأَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور ہم نے موسیٰ سے تیس راتوں کا وعدہ [١٣٦] کیا پھر اسے دس مزید راتوں سے پورا کیا تو اس کے پروردگار کی مقررہ مدت چالیس راتیں پوری ہوگئی۔ اور (جاتے وقت) موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا : ’’تم میری قوم میں میرے خلیفہ بنو۔ اصلاح کرتے رہنا [١٣٧] اور فساد کرنے والوں کی راہ پر نہ چلنا‘‘

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٣٦] طور کے دامن میں چالیس راتیں :۔ جب بنی اسرائیل کو غلامانہ زندگی سے نجات مل گئی تو اب انہیں ایک ضابطہ یا شریعت کی ضرورت تھی اس غرض کے لیے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو کوہ سینا پر بلایا کہ یہاں مبارک وادی میں آ کر تنہائی میں اللہ کی عبادت کریں اور اس کے لیے کم سے کم مدت ایک ماہ اور زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن مقرر کی گئی تھی۔ تاہم سورۃ بقرہ میں چالیس راتوں ہی کا ذکر آیا ہے۔ اس عرصے کے لیے آپ کو حکم یہ تھا کہ دن کو روزے سے رہیں اور شب و روز اللہ کی عبادت اور تفکر و تدبر کر کے اور دل و دماغ کو یکسو کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ شریعت (الواح) کو اخذ کرنے کی استعداد اپنے اندر پیدا کریں۔ [١٣٧] سیدنا ہارون علیہ السلام کی نیابت اور قوم کی گؤسالہ پرستی :۔ موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کی متلون مزاجی اور ضعیف الاعتقادی کا پورا تجربہ رکھتے تھے اس لیے کوہ سینا کو روانہ ہونے سے پیشتر اپنے بھائی سیدنا ہارون علیہ السلام کو اس بات کی تاکید کی کہ اگر یہ لوگ میرے بعد کسی طرح کی گڑبڑ پیدا کرنے کی کوشش کریں تو ان کی اصلاح کی کوشش کرتے رہنا اور فساد پیدا کرنے والوں کی بات ہرگز نہ ماننا۔ گویا اس قوم کی قیادت کے جو اختیارات سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے پاس تھے وہ آپ نے سب لوگوں کے سامنے سیدنا ہارون علیہ السلام کو تفویض کردیئے۔ قوم کے متعلق سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا خدشہ سو فیصد درست نکلا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے جانے کے بعد جلد ہی ان لوگوں نے گؤ سالہ پرستی شروع کردی۔ سیدنا ہارون علیہ السلام نے انہیں اپنی امکانی حد تک بہت کچھ سمجھایا لیکن یہ قوم کچھ ایسی اکھڑ واقع ہوئی تھی کہ سیدنا ہارون علیہ السلام کے حکم کو کچھ اہمیت ہی نہ دیتی تھی پھر سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی واپسی پر ان دونوں بھائیوں میں جو مکالمہ ہوا اس کا تفصیلی ذکر آگے آ رہا ہے۔