تِلْكَ الْقُرَىٰ نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنبَائِهَا ۚ وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا بِمَا كَذَّبُوا مِن قَبْلُ ۚ كَذَٰلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِ الْكَافِرِينَ
یہ بستیاں [١٠٥] ہیں جن کے احوال ہم نے آپ سے بیان کردیئے ہیں۔ ان کے پاس ان کے رسول واضح دلائل لے کر آئے تھے مگر جس بات کو وہ پہلے جھٹلا چکے تھے اس پر ایمان لانا [١٠٦] انہوں نے مناسب نہ سمجھا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کافروں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے
[١٠٥] یعنی سیدنا نوح علیہ السلام سیدنا ہود علیہ السلام، سیدنا صالح علیہ السلام، سیدنا لوط علیہ السلام اور سیدنا شعیب علیہ السلام کے علاقہ ہائے تبلیغ رسالت۔ [١٠٦] دل پر مہر کب اور کیسے لگتی ہے؟ آیت کے اس حصہ میں دو باتیں بیان ہوئی ہیں ایک یہ کہ دل پر مہر کب اور کیسے لگتی ہے؟ اور دوسرے یہ کہ اس مہر لگنے کی نسبت اللہ کی طرف کس لحاظ سے ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان کے دل پر مہر یوں لگتی ہے کہ وہ جس بات کا ایک دفعہ انکار کردیتا ہے یا اسے جھٹلا دیتا ہے پھر اسے کوئی نشانی دیکھنے سے یا کسی کے سمجھانے سے حقیقت سمجھ میں آ بھی جائے تو محض اس لیے اپنے پہلے سے کیے ہوئے انکار پر ڈٹ جاتا ہے کہ اس سے اس کی انامجروح ہوتی ہے۔ جب کوئی انسان اس حالت کو پہنچ جائے تو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اس کے دل پر اللہ کی مہر لگنے کا وقت آ گیا ہے اور آئندہ وہ حق بات تسلیم کرنے کے قابل ہی نہ رہے گا۔ مہر لگنے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کیوں؟ اور مہر لگانے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف اس لیے ہے کہ اسباب کو اختیار کرنا انسان کے اپنے بس میں ہے اور اسی وجہ سے اسے سبب اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کے اعمال کی جزا و سزا کا دار و مدار بھی اسباب کو اختیار کرنے کی بنا پر ہے۔ لیکن ان اسباب کے مسببات یا نتائج حاصل کرنا انسان کے اختیار میں نہیں ہے یہ نتائج اکثر اوقات تو اختیار کردہ اسباب کے مطابق ہی برآمد ہوتے ہیں لیکن کبھی کبھار ان کے خلاف بھی برآمد ہو سکتے ہیں لہٰذا نتائج کی نسبت اسباب اختیار کرنے والے کی طرف بھی ہو سکتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف بھی۔ اور قرآن میں یہ نسبت دونوں طرح سے استعمال ہوئی ہے۔ بہرحال یہ نسبت اگر اللہ تعالیٰ کی طرف بھی ہو تو بھی یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ کسی سبب اختیار کرنے والے مجرم کے عمل کے نتیجے میں ہے۔ اور حقیقتاً مجرم وہ ہے جس نے ایسے اسباب اختیار کیے تھے۔