سورة الاعراف - آیت 98

أَوَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَىٰ أَن يَأْتِيَهُم بَأْسُنَا ضُحًى وَهُمْ يَلْعَبُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

یا وہ اس بات سے نڈر ہوگئے ہیں کہ چاشت کے وقت ان پر ہمارا عذاب آئے اور وہ کھیل [١٠٢] رہے ہوں

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٠٢] ان آیات سے ایک تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ کی گرفت یا عذاب دفعۃً آتا ہے، جبکہ لوگ مطلقاً اس سے غافل اور بے خبر ہوتے ہیں خواہ یہ عذاب دن کے وقت آئے جبکہ لوگ اپنے کاروبار، کام کاج یا کھیل تفریح میں مشغول ہوں اور خواہ رات کے وقت آ جائے جبکہ وہ غفلت کی نیند سو رہے ہوں۔ یعنی موت کی طرح اس عذاب کا بھی کوئی وقت مقرر نہیں بلکہ موت کے آثار تو بسا اوقات محسوس ہونے لگتے ہیں مگر ایسی گرفت ہمیشہ ناگہانی طور پر آتی ہے اور دوسری یہ بات کہ جب ان لوگوں میں بھی کفر و عصیان اور سرکشی کی وہی امراض و علامات پائی جائیں جن کی بنا پر پہلی قوموں پر عذاب آیا تھا تو آخر ان پر کیوں نہیں آ سکتا پھر ان لوگوں کے نڈر ہونے کی کوئی معقول وجہ نہیں۔