وَمَا أَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِّن نَّبِيٍّ إِلَّا أَخَذْنَا أَهْلَهَا بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُونَ
اور ہم نے جب بھی کسی بستی میں کوئی نبی بھیجا تو وہاں کے رہنے والوں کو سختی اور تکلیف [١٠٠] میں مبتلا کیا تاکہ وہ عاجزی کی روش اختیار کریں
[١٠٠] اس سورۃ کی آیت نمبر ٥٩ سے لے کر آیت نمبر ٩٣ تک چار رکوعوں میں پانچ مشہور و معروف انبیاء سیدنا نوح علیہ السلام، سیدنا ہود علیہ السلام، سیدنا صالح علیہ السلام ، سیدنا لوط علیہ السلام، اور سیدنا شعیب علیہ السلام کا اور ان کی طرف سے دعوت، منکرین کی مخالفت ان کے سوال و جواب اور بالآخر ان معاندین کی ہلاکت کا ذکر کیا گیا ہے یہ سورۃ اعراف مکہ میں اس وقت نازل ہوئی جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب اسی قسم کے یا ان سے ملتے جلتے حالات سے دو چار تھے مشرکین مکہ کی طرف سے مخالفت اور معاندانہ سرگرمیاں، دھمکیاں ظلم، تشدد اور اسلام کی راہ روکنے کے تقریباً وہی طریقے اختیار کیے جا رہے تھے جو ان انبیاء سے پیش آ چکے تھے یہاں انبیاء کے یہ حالات بیان کرنے سے مقصد یہ تھا کہ ایک تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمیعن مخالفین کی ایسی سرگرمیوں پر صبر و ضبط سے کام لیں اور دوسرے یہ سمجھانا مقصود تھا کہ ظالموں کو بالآخر اپنے برے انجام سے دو چار ہونا ہی پڑتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ان لوگوں کے مظالم سے نجات دے دیتے ہیں اور کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کرتے ہیں۔ دنیوی عذاب سے متعلق اللہ کا ضابطہ :۔ مذکورہ بالا انبیاء کا الگ الگ اور تفصیلی ذکر کرنے کے بعد نبوت کی دعوت اور اس دعوت کے عواقب کا اجمالی ذکر فرمایا بالفاظ دیگر اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت کا ضابطہ بیان فرمایا کہ جب بھی کوئی نبی کسی بستی میں بھیجا جاتا ہے اور وہ لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دیتا ہے تو اس دعوت کی مخالفت کی جاتی ہے اور اکثر لوگ اس دعوت کو قبول کرنے سے انکار کردیتے ہیں تو ہم ان منکرین پر ہلکے ہلکے عذاب بھیج دیتے ہیں۔ مثلاً قحط اور خشک سالی کا عذاب یا کسی وبا اور بیماری کا عذاب یا معمولی قسم کے زلزلے یا سیلاب کا عذاب اور یہ عذاب ان لوگوں کو تنبیہ کے طور پر دیئے جاتے ہیں تاکہ وہ اپنی حرکتوں سے باز آ جائیں اور اللہ کی طرف رجوع کریں پھر جب وہ ان تنبیہات کا کوئی اثر قبول نہیں کرتے تو پھر ہم انہیں خوشحالی کی آزمائش میں ڈال دیتے ہیں، ان کی افرادی قوت بھی بڑھ جاتی ہے، مال و دولت میں فراوانی ہوجاتی ہے اور عیش و آرام سے زندگی گزارنے لگتے ہیں تو انہیں پہلے کے چھوٹے چھوٹے عذاب اللہ کی طرف سے کوئی تنبیہ محسوس ہی نہیں ہوتے اور وہ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اچھے اور برے دنوں کا انبیاء کی دعوت کو قبول یا رد کرنے سے کیا تعلق ہے یہ تو سب اتفاقات زمانہ یا گردش ایام کا نتیجہ ہے اور ایسے اچھے اور برے دنوں سے ہمارے آباو اجداد بھی دو چار ہوتے رہے ہیں جب ان کی یہ کیفیت ہوجاتی ہے کہ انہیں کسی بھی حالت میں اللہ کی گرفت کا خطرہ محسوس نہیں ہوتا اور دنیا میں مست اور مگن ہوجاتے ہیں تو یہی وقت ہمارے عذاب کا ہوتا ہے اور ہمارا عذاب اس طرح یکدم ان پر آن پڑتا ہے کہ کسی کو اس طرح عذاب آ جانے کا پہلے احساس تک نہیں ہونے پاتا۔ قریش مکہ پر قحط کا عذاب :۔ ایسا ہی ایک ہلکا عذاب قریش مکہ پر بھی بطور تنبیہ آیا تھا جس کا ذکر سورۃ دخان میں موجود ہے۔ ہوا یہ تھا کہ جب قریش مکہ کی معاندانہ سرگرمیاں حد سے بڑھ گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں بددعاء فرمائی کہ یا اللہ ان پر سیدنا یوسف علیہ السلام کے زمانہ جیسا قحط نازل فرما۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول ہوئی اور مکہ میں ایسا قحط پڑا جس میں یہ معززین قریش مردار، ہڈیاں اور چمڑا تک کھانے پر مجبور ہوگئے باہر سے بھی کہیں سے غلہ نہیں پہنچ رہا تھا اور ان لوگوں کی حالت ایسی ہوگئی تھی کہ جب آسمان کی طرف دیکھتے تو بھوک اور کمزوری اور نقاہت کی وجہ سے دھواں ہی دھواں نظر آتا۔ قحط سے تنگ آ کر ان لوگوں نے ابو سفیان کو آپ کے پاس بھیجا اور اس نے آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ تو کہتے ہیں کہ میں رحمت ہوں جبکہ آپ کی قوم خشک سالی سے تباہ ہو رہی ہے ہم آپ کو رحم اور قرابت کا واسطہ دے کر کہتے ہیں کہ اس قحط کے دور ہونے کی دعا کیجئے اور اگر یہ مصیبت دور ہوگئی تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے بارش ہوگئی۔ اتفاق سے باہر سے غلہ آنا بھی شروع ہوگیا پھر جب حالات میں تبدیلی آ گئی تو ان متعصب لوگوں کے دل پھر برگشتہ ہونے لگے پھر سرداران قوم نے یہ کہنا شروع کردیا کہ زمانے میں ایسے اتار چڑھاؤ پہلے بھی آتے رہتے ہیں اگر اس مرتبہ قحط پڑگیا تو یہ کون سی نئی بات ہے لہٰذا ایسی چیزوں سے متاثر ہو کر اپنے دین کو ہرگز نہ چھوڑنا۔ یہ واقعہ بخاری میں بھی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت سے کئی مقامات پر مذکور ہے۔