وَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَوْمِهِ لَئِنِ اتَّبَعْتُمْ شُعَيْبًا إِنَّكُمْ إِذًا لَّخَاسِرُونَ
اس کی قوم کے کافر سرداروں نے کہا : ’’ اگر تم لوگوں نے شعیب [٩٦] کی پیروی کی تو تم نقصان اٹھاؤ گے‘‘
[٩٦] سچائی اختیار کرنے پر نقصان کا نظریہ :۔ سرداروں کے اس قول کے مخاطب وہ لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو شعیب علیہ السلام پر ایمان لائے تھے اس صورت میں اس کا معنی یہ ہوں گے کہ اگر تم نے شعیب کا ساتھ نہ چھوڑا تو ہم تمہارا ناک میں دم کردیں گے اور جینا تم پر حرام کردیں گے لہٰذا اس کا ساتھ دینے سے باز آ جاؤ۔ اور وہ لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو ان منکرین کے اپنے گروہ سے تعلق رکھتے تھے اس صورت میں اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر تم نے کاروبار میں سچ بولنے اور درست ناپ تول رکھنے کا طریقہ اختیار کرلیا جیسا کہ یہ شعیب کہتا ہے تو تمہیں تمہارے کاروبار اور تجارتی لین دین میں کبھی فائدہ نہ ہوگا اور ہمیشہ نقصان ہی اٹھاؤ گے اور بالآخر سارا کاروبار ہی ٹھپ ہو کر رہ جائے گا۔ اور یہ نظریہ صرف اہل مدین کا نظریہ نہیں تھا بلکہ ہر زمانے میں مفسد قسم کے لوگوں کا یہی خیال رہا ہے کہ تجارت، سیاست اور دوسرے دنیوی معاملات جھوٹ اور بے ایمانی کے بغیر چل ہی نہیں سکتے اور آج بھی ہمارے تاجروں اور سیاست دانوں کی اکثریت کا یہی حال ہے حالانکہ یہی باتیں فساد فی الارض کی اصل جڑ ہیں اور انہی سے لوگوں کے حقوق پامال ہوتے ہیں اور بالآخر ایسے دغا باز لوگ پورے معاشرہ کو لے ڈوبتے ہیں۔