وَإِن كَانَ طَائِفَةٌ مِّنكُمْ آمَنُوا بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ وَطَائِفَةٌ لَّمْ يُؤْمِنُوا فَاصْبِرُوا حَتَّىٰ يَحْكُمَ اللَّهُ بَيْنَنَا ۚ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ
اور اگر تم میں سے ایک فریق ایسا ہے کہ جو کچھ مجھے دے کر بھیجا گیا ہے، اس پر ایمان لے آیا اور دوسرا فریق ایمان نہیں لایا تو صبر کرو (٩٢۔ الف) تاآنکہ اللہ ہمارے درمیان فیصلہ کردے اور وہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے
[٩٢۔ الف] شہر میں داخل ہونے والے راستوں پر ان لوگوں کے بیٹھنے کے دو مقاصد تھے ایک یہ کہ جہاں داؤ لگتا مسافروں اور راہ گیروں کو لوٹ لیتے اور دوسرے جو لوگ شہر میں آنا چاہتے انہیں سیدنا شعیب علیہ السلام کے پاس جانے سے روکتے بھی تھے، بہکاتے بھی تھے اور دھمکاتے بھی تھے اور کہتے کہ یہ شخص دغا باز اور فریبی ہے اس کا کہنا نہ ماننا نہ اس کی چالوں ہی میں آنا اور آپ کی تعلیم اور شریعت میں سینکڑوں قسم کی جاہلانہ نکتہ چینیاں کرتے اور عیب لگاتے تھے اور سیدنا شعیب علیہ السلام پر ایمان لانے والے معدودے چند لوگوں پر طرح طرح کی سختیاں بھی کرتے تھے کہ وہ ان کے دین سے باز آ جائیں۔ سیدنا شعیب علیہ السلام نے ان لوگوں کو بڑے نرم الفاظ میں پہلے اللہ کے ان پر احسانات یاد دلائے پھر فرمایا کہ اگر چند لوگ ایمان لے آئے ہیں تو انہیں پریشان کیوں کرتے ہو۔ ہم میں سے جو بھی جھوٹا ہے اللہ اس سے خود نمٹ لے گا تھوڑی دیر صبر تو کرو۔