وَلَا تَقْعُدُوا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوعِدُونَ وَتَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِهِ وَتَبْغُونَهَا عِوَجًا ۚ وَاذْكُرُوا إِذْ كُنتُمْ قَلِيلًا فَكَثَّرَكُمْ ۖ وَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ
اور (زندگی کی) ہر راہ پر راہزن بن کر [٩٢] نہ بیٹھ جاؤ کہ لوگوں کو دھمکاتے پھرو اور جو شخص اللہ پر ایمان لائے اسے اس کی راہ سے روکنے لگو اور اس سیدھی راہ میں کجی کے درپے ہوجاؤ۔ اور وہ وقت یاد کرو۔ جب تم تھوڑے تھے تو اللہ نے تمہیں زیادہ کردیا۔ اور دیکھو کہ فساد کرنے والوں کا کیا انجام ہوتا ہے
[٩٢] ہیرا پھیریوں اور لوٹ مار کی قسمیں :۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ تجارتی راستوں پر بیٹھ کر ان قافلوں کو لوٹنے کے درپے نہ ہوجاؤ پھر یہ لوٹنا بھی کئی قسم کا ہوتا ہے۔ ایک تو عام صورت ہے کہ جیسی کوئی رہزن کسی کمزور کا مال چھین لیتا ہے دوسرے تجارتی منڈی میں پہنچنے سے پیشتر اس سے مال کا سودا کرلینا جبکہ اس راہ رو کو منڈی کے بھاؤ کی خبر نہ ہو اس طرح فریب کے ساتھ راہرو سے سستا مال لے لینا بھی لوٹنے کے مترادف ہے اور اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے منع فرمایا ہے اور تیسرا یہ کہ اپنی سیاسی پوزیشن کی بنا پر ان تاجروں کو بلیک میل نہ کیا کرو۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ نبی پر ایمان لانا چاہتے ہیں انہیں ڈراؤ دھمکاؤ نہیں یا ان کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کر کے نبی کی بتلائی ہوئی سیدھی راہ میں ٹیڑھ مت پیدا کرو جیسا کہ انبیاء کے مخالفین ہر زمانے میں ایسی حرکتیں کرتے اور چالیں چلتے آئے ہیں چنانچہ مشرکین مکہ نے بھی آپ کی راہ روکنے کے لیے ایسے تمام حربے استعمال کیے تھے۔