وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُم بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِّنَ الْعَالَمِينَ
اور لوط نے جب اپنی قوم [٨٥] سے کہا : تم بے حیائی کا وہ کام کرتے ہو جو تم سے پہلے اہل عالم میں سے کسی نے بھی نہیں کیا تھا
[٨٥] سیدنالوط علیہ السلام کا مرکز تبلیغ :۔ سیدنا لوط علیہ السلام سیدنا ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ کے بھتیجے تھے اور ان پر ایمان لائے تھے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے جب عراق سے شام و فلسطین کی طرف ہجرت کی تو سیدنا لوط علیہ السلام ان کے ساتھ تھے اور بطور معاون تبلیغ رسالت کا فریضہ سر انجام دیتے رہے پھر آپ کو بھی نبوت عطا ہوئی اب سیدنا ابراہیم علیہ السلام تو مصر کی طرف چلے گئے اور سیدنا لوط علیہ السلام کو شرق اردن کی طرف بھیج دیا جس کا صدر مقام سدوم نامی شہر تھا یہی سیدنا لوط علیہ السلام کا مرکز تبلیغ تھا۔ سدوم کا آج کہیں نام و نشان نہیں ملتا۔ اغلب گمان یہی ہے کہ یہ شہر بحیرہ مردار میں غرق ہوچکا ہے جسے بحر لوط بھی کہا جاتا ہے۔ قوم لوط میں دوسری اخلاقی برائیوں کے علاوہ سب سے بڑی برائی یہ تھی کہ یہ لوگ عورتوں کی بجائے مردوں ہی سے ان کی دبر میں جنسی شہوت پوری کرتے تھے۔ اس فحاشی کی موجد بھی یہی قوم تھی اور اس فحاشی میں اس قوم نے شہرت دوام حاصل کی۔ حتیٰ کہ ایسی فحاشی کا نام بھی قوم لوط کی نسبت سے لواطت پڑگیا یعنی فحاشی کی وہ قسم جس کے خلاف سیدنا لوط علیہ السلام نے جہاد کیا تھا۔ ممکن ہے کہ شیطان نے ان لوگوں کو اولاد کی تربیت اور اس کی ذمہ داریوں سے فرار کے لیے یہ راہ سجھائی ہو جیسا کہ بہت سے ادوار میں یہی بات قتل اولاد کی بھی محرک بنی رہی ہے۔ عمل قوم لوط اور تہذیب مغرب :۔ سیدنا لوط علیہ السلام کی قوم کے بعد دوسرے بدکردار لوگ بھی اس فحش مرض میں مبتلا رہے ہیں لیکن یہ فخر یونان کو حاصل ہے کہ اس کے فلاسفروں نے اس گھناؤنے جرم کو ایک اخلاقی خوبی کے مرتبہ تک پہنچا دیا اور رہی سہی کسر جدید مغربی تہذیب نے پوری کردی ہے جس نے علی الاعلان ہم جنسی ( Sex۔ Homo) کے حق میں پروپیگنڈا کیا یعنی اگر مرد، مرد سے اور عورت، عورت سے لپٹ کر اپنی جنسی خواہش پوری کرلیں تو اس میں کوئی قباحت نہیں اور ملکی قانون کو ہرگز اس میں مزاحم نہ ہونا چاہیے۔ حتیٰ کہ کئی ممالک کی مجالس قانون ساز نے اس فعل کو جائز قرار دے دیا ہے۔