قَالَ قَدْ وَقَعَ عَلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ رِجْسٌ وَغَضَبٌ ۖ أَتُجَادِلُونَنِي فِي أَسْمَاءٍ سَمَّيْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَاؤُكُم مَّا نَزَّلَ اللَّهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ ۚ فَانتَظِرُوا إِنِّي مَعَكُم مِّنَ الْمُنتَظِرِينَ
(ہود نے) کہا: ’’تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر عذاب اور اس کا غضب ثابت ہوچکا ہے۔ کیا تم مجھ سے ایسے ناموں کے بارے میں جھگڑا کرتے ہو جو تم نے اور تمہارے آباء و اجداد نے رکھ لیے [٧٥] ہیں جن کے لئے اللہ نے کوئی سند نہیں اتاری؟ سو اب تم بھی انتظار کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں‘‘
[٧٥] کسی کو اختیارات تفویض ہونے کی کوئی علمی سند نہیں :۔ قوم کے سرداروں کو ہود علیہ السلام نے جواب دیا کہ جب تمہاری سرکشی اور گستاخانہ بے حیائی اس حد تک پہنچ چکی ہے تو بس سمجھ لو کہ اب تم پر اللہ کا عذاب آنے ہی والا ہے۔ رہی تمہارے معبودوں کی بات جن میں سے تم کسی کو بارش کا دیوتا کہتے ہو کسی کو ہواؤں کا، کسی کو فصلوں کا کسی کو صحت کا اور کسی کو مال و دولت کا، تو یہ نام بھی تم نے یا تمہارے باپ دادوں ہی نے خود تجویز کیے تھے کسی آسمانی کتاب یا صحیفے میں یہ قطعاً مذکور نہیں کہ اللہ نے فلاں قسم کے اختیارات فلاں ہستی کو سونپ دیئے ہیں اور فلاں چیز کے اختیارات فلاں ہستی کو۔ ہمارے ہاں بھی ایسے نام بکثرت پائے جاتے ہیں مثلاً فلاں بزرگ غوث (فریاد رس) ہے فلاں ولی داتا ہے فلاں گنج بخش ہے فلاں مشکل کشا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس دور کے مشرک ایسی صفات کو دیوتاؤں، دیویوں، فرشتوں یا بعض ارواح کی طرف منسوب کرتے تھے اور ہمارے زمانہ میں یہ صفات بزرگوں کی طرف منسوب کردی جاتی ہیں خواہ وہ زندہ ہوں یا فوت ہوچکے ہوں۔ اللہ تعالیٰ یہ فرماتے ہیں کہ ایسی باتوں کے لیے شریعت الٰہی میں کوئی سند نہیں ہے کہ میرا فلاں ولی یا بزرگ مشکل کشا ہوسکتا ہے اور میں نے اسے ایسے اختیارات دے رکھے ہیں۔