وَنَادَىٰ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ أَصْحَابَ النَّارِ أَن قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَهَلْ وَجَدتُّم مَّا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا ۖ قَالُوا نَعَمْ ۚ فَأَذَّنَ مُؤَذِّنٌ بَيْنَهُمْ أَن لَّعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ
اور اہل جنت دوزخیوں کو پکار کر پوچھیں گے :’’ہم نے تو ان وعدوں کو سچا پالیا ہے جو ہم سے ہمارے پروردگار نے کیے تھے کیا تم سے تمہارے پروردگار نے جو وعدے کیے تھے تم نے بھی انہیں سچا پایا ؟‘‘ وہ جواب [٤٣۔ الف] دیں گے’’ ہاں! (ہم نے بھی سچا پایا)‘‘ پھر ان کے درمیان ایک پکارنے والا پکارے گا کہ ’’ظالموں پر اللہ کی لعنت ہو
[٤٣۔ الف] جنت اور دوزخ میں اتنا زیادہ فاصلہ ہوگا جس کا ہمارے لیے اس دنیا میں تصور بھی ممکن نہیں اور قرآن کی اس آیت اور بعض دوسری آیات سے اہل جنت اور اہل دوزخ کا مکالمہ بھی ثابت ہے۔ جس سے کئی باتوں کا پتہ چلتا ہے مثلاً ایک یہ کہ اس دوسری زندگی میں لوگوں کو جو سمعی اور بصری قوتیں عطا کی جائیں گی وہ موجودہ زندگی سے بہت زیادہ قوی ہوں گی۔ دوسرے وہاں کا مواصلاتی نظام بھی موجودہ دنیا کے نظام سے بہت زیادہ سریع التاثیر ہوگا۔ موجودہ دور میں ہم ٹیلی ویژن پر دنیا کے دور دراز ملکوں کے لوگوں کے مکالمات سن بھی سکتے ہیں اور انہیں دیکھ بھی سکتے ہیں اور اس دوسری زندگی میں یہ ہوگا کہ اہل جنت میں سے اگر کسی کو اپنے ان ساتھیوں کا خیال آیا جو کافر اور دوزخ کے مستحق تھے اور وہ ان سے کلام کرنا چاہے گا تو ان کی اور ان کے احوال و ظروف کی تصویر ہی سامنے نہیں آئے گی بلکہ وہ اپنے اپنے مقام پر بیٹھے ہوئے ایک دوسرے سے گفتگو بھی کرسکیں گے۔ یہ سورۃ مکی ہے اور اس مقام پر جن اہل دوزخ کا ذکر آیا ہے اس سے مراد غالباً وہی لوگ ہیں جو مسلمانوں کو حقیر مخلوق سمجھتے تھے اور ان کے متعلق قسمیں کھا کر کہا کرتے تھے کہ ایسے لوگ کبھی اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے مستحق نہیں ہو سکتے ایسے ہی ناتواں اور نادار مسلمان جنت میں آرام پانے کے بعد اپنے ان متکبر ساتھیوں سے ہم کلام ہونا چاہیں گے جو انہیں حقیر سمجھا کرتے تھے۔ پھر ان میں وہی گفتگو ہوگی جو اس آیت میں مذکور ہے اور یہ مکالمہ ایسے لوگوں کو عبرت دلانے کے لیے اور اس دنیا میں حسرت و یاس بڑھانے کے لیے یہاں مذکور ہوا ہے اور ایسے ظالموں پر اس دنیا میں بھی لعنت ہے اور اس جہان میں بھی لعنت ہوگی۔