إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّىٰ يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِينَ
بلاشبہ جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور ان سے اکڑ بیٹھے، ان کے لیے نہ تو آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے اور نہ وہ جنت ہی میں داخل ہوسکیں گے تاآنکہ اونٹ سوئی کے ناکے [٤٠] میں داخل ہوجائے۔ اور ہم مجرموں کو ایسے ہی سزا دیا کرتے ہیں
[٤٠] یہ عربی زبان کا محاورہ ہے جو کسی ناممکن العمل بات کے موقع پر بولا جاتا ہے یعنی جس طرح اونٹ کا سوئی کے ناکے میں داخل ہونا ناممکن ہے۔ ویسے ہی شیطان سیرت آدمیوں کا جنت میں داخل ہونا ناممکن ہے اور جنت میں داخلہ تو دور کی بات ہے ایسے لوگوں کی روح کو جب فرشتے لے کر آسمان کی طرف جاتے ہیں تو آسمان کا دروازہ ہی نہیں کھولا جاتا جبکہ نیک لوگوں کا شاندار استقبال کیا جاتا ہے۔ بدکار لوگوں کی روح کو وہیں سے نیچے پھینک دیا جاتا ہے اور قبر کے امتحان میں ناکامی کے بعد اسے سجین میں قید کردیا جاتا ہے۔ وَلَجَ کے معنی کسی تنگ جگہ میں داخل ہونا، گھسنا یا گھسنے کی کوشش کرنا ہے جیسے تلوار کا میان میں یا بارش کے پانی کا زمین میں داخل ہونا ہے اور اولج کے معنی کسی چیز کو تنگ جگہ میں داخل کرنا یا گھسیڑنا ہے جیسے ارشاد باری ہے: ﴿ یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّہَارِ وَیُوْلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیْلِ ۭ ﴾ (الحدید :6) یعنی اللہ تعالیٰ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں۔ اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر یوں فرمایا : ﴿ یُکَوِّرُ الَّیْلَ عَلَی النَّہَارِ وَیُکَوِّرُ النَّہَارَ عَلَی الَّیْلِ ﴾ ( الزمر :5) یعنی رات کو دن پر لپیٹتا ہے اور دن کو رات پر۔ اور ﴿یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِ﴾ 7۔ الاعراف :40) عربی زبان کا محاورہ ہے۔