سورة البقرة - آیت 2

ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

یہ ایسی کتاب ہے جس میں شک [٢] کی کوئی گنجائش نہیں، اس میں ان ڈرنے والوں کے لیے ہدایت [٣] ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢] یعنی اس کتاب قرآن کریم کے منزل من اللہ ہونے، اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر اترنے اور نبی کے اس پیغام کو لوگوں تک پہنچا دینے میں کسی مقام پر شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ یہ سب امور اللہ تعالیٰ کی براہ راست نگرانی میں طے پا رہے ہیں۔ ریب کا لغوی مفہوم :۔ ریب دراصل ایسے شک کو کہتے ہیں جس میں اضطراب اور خلجان کا عنصر بھی شامل ہو۔ کفار مکہ کے قرآن کے نزول پر دو طرح کے اعتراض تھے۔ ایک یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی اس کو تصنیف کر کے ہمیں یہ کہہ دیتا ہے کہ یہ کلام منزل من اللہ ہے اور دوسرا اعتراض یہ تھا کہ یہ قرآن دوسرے عالموں سے سیکھ کر ہمیں سنا دیتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ منزل من اللہ ہے۔ اگر بات اتنی ہی ہوتی تو خلجان اور اضطراب کا کوئی عنصر اس میں شامل نہیں ہوتا تھا۔ مگر مشکل یہ تھی کہ قرآن جو دعوت پیش کر رہا تھا اس میں سب سے زیادہ زور ہی عقیدہ آخرت اور اخروی باز پرس پر دیا جا رہا تھا جب کہ کفار مکہ بعث بعد الموت کے کلی طور پر منکر تھے اور انہیں اضطراب اور بے چینی اس بات پر تھی کہ اگر بالفرض قرآن کی دعوت سچی ہے تو پھر ان کی خیر نہیں۔ ان کے اسی اضطراب اور خلجان کو دور کرنے کے لیے اس سورۃ کے تمہیدی الفاظ میں ہی یہ واضح کردیا گیا کہ اس کتاب کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے نزول اور اس کے مضامین سب کچھ قطعی اور یقینی ہیں اور اس پر ایمان لانے والوں کو کسی قسم کا شک اضطراب اور خلجان باقی نہیں رہتا۔ لہٰذا تمہارے اضطراب اور خلجان کا بھی یہی علاج ہے۔ کہ تم اسے تسلیم کر کے اس پر ایمان لے آؤ۔ کیاقرآن صرف متقین کےلیےہدایت ہے یاسب کےلیے :۔ اس مقام پرفرمایا کہ یہ کتاب ڈرنے والوں یامتقین کےلیے ہدایت ہےاور ایک دوسرے مقام پرا سی قرآن کریم کو ھدیٰ للناس (تمام لوگوں کے لیے ہدایت) (۱۸۵:۲) فرمایا۔ اس کی مثال یوں سمجھیے ، جیسے ایک مقررکسی جلسہ میں سب حاضرین کومخاطب کرکے نہایت قیمتی معلومات بتاتااور انہیں ہدایات دیتاہے لیکن ان سےتمام حاضرین یکساں مستفیض نہیں ہوتے بلکہ ہرشخص اپنی بساط کےمطابق ان سے استفادہ کرتااوران پرعمل پیراہوتاہے اور بعض ایسے بھی ہوتے ہیں ۔جومطلقاً کوئی اثر قبول نہیں کرتے۔یہی صورت قرآنی ہدایات کی بھی ہے ۔ان سے صرف ڈرنے والے یا متقین ہی ہدایت حاصل کرتےہیں۔اگلی تین آیات میں وہ اوصاف یاشرائط بیان کی گئی ہیں جومتقین کےلیے ضروری ہیں۔