وَقَالَتْ أُولَاهُمْ لِأُخْرَاهُمْ فَمَا كَانَ لَكُمْ عَلَيْنَا مِن فَضْلٍ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْسِبُونَ
اور پہلی جماعت پچھلی کے متعلق کہے گی۔ ’’آخر تمہیں ہم پر کون سی برتری حاصل ہے (کہ تمہیں تو اکہرا عذاب ہو اور ہمیں دہرا یعنی دگنا ہو؟) لہٰذا تم بھی جو کچھ کرتے رہے ہو اس کے عذاب کا مزا چکھو‘‘
اہل دوزخ کی باہمی تکرار: اُس تکرار کو قرآن کریم میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ لَوْ تَرٰى اِذِ الظّٰلِمُوْنَ مَوْقُوْفُوْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ يَرْجِعُ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضِ ا۟لْقَوْلَ يَقُوْلُ الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْا لَوْ لَااَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِيْنَ۔ قَالَ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْا لِلَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا اَنَحْنُ صَدَدْنٰكُمْ عَنِ الْهُدٰى بَعْدَ اِذْ جَآءَكُمْ بَلْ كُنْتُمْ مُّجْرِمِيْنَ﴾ (سبا: ۳۱۔ ۳۲) ’’کاش! تم دیکھ سکو اس موقع کو جب یہ ظالم لوگ اپنے رب کے حضور کھڑے ہونگے اور ایک دوسرے پر باتیں بنا رہے ہوں گے ضعیف لوگ متکبروں سے کہیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومن بن جاتے وہ بڑے بننے والے جواب دیں گے۔ کیا ہم نے تم کو ہدایت سے روک دیا تھا جبکہ وہ تمہارے پاس آئی تھی ۔ نہیں! بلکہ تم خود مجرم تھے۔‘‘ مطلب یہ کہ تم خود کب ہدایت کے طالب تھے اگر ہم نے تمہیں لالچ دے کر اپنا بندہ بنایا تو تم لالچی تھے جو ہمارے دام میں پھنس گئے، اگر ہم نے تمہیں مادہ پرستی، دنیا پرستی اور قوم پرستی جیسی گمراہیوں میں مبتلا کیا تو تم نے خدا پرستی کی طرف بلانے والوں کی پکار کو چھوڑ کر ہماری پکار پر لبیک کہا۔ پھر وہ جواب دیں گے کہ نہیں نہیں تمہاری دن رات کی چالاکیوں نے اور تمہاری اس تعلیم نے کہ ہم اللہ کے ساتھ کفر کریں اور اس کے شریک ٹھہرائیں ہمیں گم کردہ راہ بنادیا۔ اس وقت سب کے سب نادم ہوں گے لیکن ندامت کو دبانے کی کوشش میں ہونگے۔ غرض ایک دوسرے کو مورودِالزام ٹھہرائیں گے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ایسے کفار کی گردنوں میں طوق پڑے ہونگے اور انھیں ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا نہ کم نہ زیادہ بلکہ پورا پورا۔