فَرِيقًا هَدَىٰ وَفَرِيقًا حَقَّ عَلَيْهِمُ الضَّلَالَةُ ۗ إِنَّهُمُ اتَّخَذُوا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ اللَّهِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ
ایک فریق کو تو اس نے ہدایت کی اور دوسرے فریق پر گمراہی واجب [٢٨] ہوگئی۔ کیونکہ انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر شیطانوں کو اپنا سرپرست بنا لیا تھا پھر وہ یہ بھی سمجھ رہے ہیں کہ وہی سیدھی راہ پر ہیں
کردار دو ہیں: ایک شیطان کی راہ پر چلنے والا، دوسرا رسولوں کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے والا۔ گمراہ ہونے والا گروہ: جنھوں نے شیطان کو اپنا سرپرست بنالیا اور وہ گمان میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ ہم ہدایت یافتہ ہیں۔ شیطان اپنے دوستوں کو یہی سکھاتا ہے کہ تم جو کچھ بھی کر رہے ہو وہ بالکل ٹھیک ہے اور جس نے شیطان کے فریب میں آکر اللہ کی راہ سے ذرہ بھر بھی انحراف کیا سمجھ لے کہ وہ شیطان کے فریب میں آچکا ہے۔ کیونکہ اللہ کی سیدھی راہ کے سو ا باقی سب شیطانی راہیں ہیں۔ کیونکہ شیطان بھی کوئی اچھی بات ہی سمجھاتا ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ اچھے کام ہی کررہے ہیں۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ: ’’جو لوگ فرمانبردار ہونگے ان پر نیکیوں کے کام آسان ہونگے اور جو شقاوت والے ہیں ان پر بدیاں آسان ہونگی۔‘‘ (بخاری: ۱۳۶۲، مسلم: ۲۶۴۷) ایک حدیث قدسی میں ہے کہ ’’میں نے اپنے بندوں کو موحد و حنیف پیدا کیا، پھر شیطان نے انھیں ان کے دین سے بہکا دیا۔‘‘(مسلم: ۲۸۶۵)