قَالَ اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَىٰ حِينٍ
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’تم سب (یہاں سے) نکل جاؤ تم ایک [٢١] دوسرے کے دشمن ہو۔ اب تمہارے لیے زمین میں جائے قرار اور ایک مدت تک سامان زیست ہے‘‘
ابلیس کے مکرو فریب اور جھوٹی قسموں کے دا م میں پھنس کر آدم علیہ السلام نے درخت کا پھل کھالیا، ابلیس نے آدم علیہ السلام کو اللہ کی نافرمانی پر آمادہ کرلیا، چنانچہ دونوں کوجنت سے نکال کر زمین میں لا بسایا گیا، کیونکہ جنت ایسی جگہ نہیں جس میں محاذ آرائی ہو اس کے لیے زمین ہی موزوں تھی۔ اور حق و باطل کے سب معرکے زمین پر ہی واقع ہوں اس طرح وہ مشیت الٰہی خودبخود پور ی ہوگئی جس کے لیے انسان کو پیدا کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اب تمہاری قرار کی جگہ زمین ہی ہے۔ وہیں تم اپنی مقررہ زندگی کے دن پورے کرو گے۔ اور مرنے کے بعد اسی میں دبائے جاؤ گے اور قیامت کے دن اسی میں سے اٹھائے جاؤ گے حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے اُتر جانے کا یہ حکم سزا کے طور پر نہیں دیا گیا تھا۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اس کی تصریح کی گئی ہے کہ اللہ نے ان کی توبہ قبول کرلی اورانھیں معاف کردیا۔