قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ
وہ دونوں کہنے لگے : ’’ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف [٢٠] نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے‘‘
توبہ و استغفار کے یہ وہی کلمات ہیں جو حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے سکھائے۔ ابلیس و آدم کے خصائل کا فرق: ابلیس: اللہ کی نافرمانی اس نے عمداً کی۔ آدم علیہ السلام: جبکہ آدم علیہ السلام سے نافرمانی بھول سے ہوئی ابلیس باز پرس کرنے پر اکڑ بیٹھا تکبر کیا جبکہ آدم نے اعتراف کیا کہ واقعی یہ ہمارا ہی قصور تھاابلیس نے اپنی نافرمانی کاالزام اللہ کے ذمے لگایاانھوں نے اعتراف کیا اوراللہ کے حضور توبہ کی وجہ سے مقرب بارگاہ الٰہی بن گئے اور انھیں نبوت عطا ہوئی۔ دونوں راستوں کی نشاندہی ہوگئی: شیطانی راستے کی بھی اور اللہ والوں کے راستے کی بھی گناہ کرکے اس پر اصرار کرنا، اترانا اور صحیح ثابت کرنے کے لیے دلائل کے انبار فراہم کرنا شیطانی راستہ ہے۔ اور گناہ کے بعد احساس ندامت سے مغلوب ہوکر بارگاہ الٰہی میں جھک جانا، توبہ و استغفار کا اہتمام کرنا بندگانِ الٰہی کا راستہ ہے۔