سورة الانعام - آیت 154

ثُمَّ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ تَمَامًا عَلَى الَّذِي أَحْسَنَ وَتَفْصِيلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لَّعَلَّهُم بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

پھر ہم نے موسیٰ کو ایسی کتاب دی جو نیک روش اختیار کرنے والے کے لیے مکمل تھی اور اس میں ہر (ضروری) بات کی تفصیل [١٧٦۔ ١] بھی تھی اور یہ کتاب ہدایت اور رحمت بھی تھی (اور اس لیے دی تھی) کہ شائد وہ لوگ اپنے پروردگار سے ملاقات [١٧٧] پر ایمان لائیں

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

قرآن کریم کا یہ اسلوب ہے کہ جہاں قرآن کا ذکر ہوتا ہے وہاں تورات کا اور جہاں تورات کا ذکر ہو وہاں قرآن کا بھی ذکر کردیا جاتا ہے اسی اسلوب کے تحت یہاں تورات کا ذکر اور اس کے اس وصف کا بیان ہے کہ وہ بھی اپنے دور کی ایک جامع کتاب تھی۔ اس میں بھی تمام ضروری امور موجود ہیں جس کی قوم موسیٰ کو ضرورت تھی۔ ہر ہدایت اس میں ملتی ہے سب سے بڑی بات آخرت پر یقین پختہ ہو کہ اپنے رب سے ملاقات ہوگی۔ آخرت پر یقین رکھنے اور نہ رکھنے والوں کا تقابل: پروردگار سے ملاقات سے مراد اللہ کے حضور اعمال کی جوابدہی کا تصور ہے۔ یہ وہ تصور ہے جو انسان کی زندگی کا رخ بدل سکتا ہے آخرت پر ایمان نہ رکھنے والے کی زندگی نہایت آزادانہ، غیر ذمہ دارانہ بلکہ وحشیانہ قسم کی بھی ہوسکتی ہے اور آخرت پر ایمان رکھنے احکام الٰہی کاپابند نواہی سے اجتناب کرنے والا اور دنیا میں انتہائی محتاط اور ذمہ دارا نہ زندگی گزارتا ہے۔