وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ ۗ وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَىٰ أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ ۖ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ
اور جس چیز پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو، اسے [١٢٦] مت کھاؤ کیونکہ یہ گناہ کی بات ہے۔ بلاشبہ شیطان تو اپنے دوستوں کے دلوں میں (شکوک و اعتراضات) القاء کرتے رہتے ہیں تاکہ وہ تم سے [١٢٧] جھگڑتے رہیں اور اگر تم نے ان کی بات مان لی تو تم بھی مشرک [١٢٨] ہی ہوئے
جس جانور کو ذبح کرتے ہوئے عمداً اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اس کا کھانا فسق اور ناجائز ہے۔ اور اگر ذبح کرتے ہوئے اللہ کا نام لینا بھول جائے تو اسے کھانے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان کا ذبیحہ حلال ہے۔ (بخاری: ۵۵۰۹) ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا اس کے یہی معنی بیان کیے ہیں کہ ’’بھول جانے والے کو فاسق نہیں کہا جاتا۔‘‘ حلت و حرمت کا اختیار صرف اللہ کو ہے: یعنی شرک صرف یہی نہیں کہ کسی دوسرے کی پرستش کی جائے یا حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے پکارا جائے یا اس کے نام کی قربانی یا نذر و نیاز دی جائے بلکہ کسی کے حلال بتائے ہوئے کو حلال اور حرام بتائے ہوئے کو حرام سمجھنا بھی شرک ہے۔ (ابو داؤد: ۲۸۱۹) چنانچہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو عدی بن حاتم (جو پہلے عیسائی تھے) کہنے لگے ’’یارسول اللہ! ہم اپنے علماء ومشائخ کو رب تو نہیں سمجھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عدی سے پوچھا‘‘ کیا جس چیز کو وہ حرام یا حلال کہتے تو تم مان لیتے تھے؟ عدی کہنے لگے ہاں یہ تو تھا آپ نے فرمایا بس یہی رب بنانا ہے۔ (ترمذی: ۳۰۹۵) دنیا میں جو کچھ بھی ہے اللہ کا مال ہے اُسے اس کے بتائے ہوئے طریقے سے لینا چاہیے اور اسی طریقے سے اللہ کا نام لے کر استعمال کرنا چاہیے یہ اسلام ہے اللہ کا نام نہ لینے سے اللہ کی اطاعت سے باہر نکل جاتا ہے۔ شیطان کا مقصد کیا ہے: شیطان اور اس کے دوست حلال حرام پر جھگڑا کروانا چاہتے ہیں مردار کھانے پر دلائل دیتے ہیں کہ اللہ نے مارا ہے اسے کھالو۔ جزوی طور پر بھی کسی کی اطاعت کرنا شرک ہے۔