وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَنَذَرُهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ
اور ہم ان کے دلوں کو اور ان کی آنکھوں کو ایسے ہی پھیر دیں گے جیسے وہ پہلی بار بھی اس (قرآن) پر ایمان [١١٢] نہیں لائے اور انہیں ان کی سرکشی میں ہی بھٹکتے چھوڑ دینگے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جس دل میں آپ ہدایت اُتارنا چاہتے ہیں ۔ جو کائنات میں پھیلی ہوئی لاکھوں نشانیوں سے ہدایت حاصل نہیں کرتے، وہ ایسے معجزے دیکھ کر بھی باتیں ہی بنائیں گے۔ قرآن بذات خود کیا کم معجزہ ہے جس کے کھلے چیلنج کے باوجود یہ سب مل کر بھی اس جیسی ایک سورت بھی پیش نہ کرسکے۔ مزید معجزے دیکھ کر بھی یہ بصیرت و بصارت کے لحاظ سے اندھے بن جائیں گے۔ سرکشی میں بھٹکتے رہیں گے۔ اسباب کا اختیار کرنا انسان کے اپنے اختیار میں ہے، نتائج کا اختیار اللہ کے پاس ہے اور اسی پر انسان کا مواخذہ ہوگا۔ چنانچہ ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ ’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔‘‘ (بخاری: ۱) اگر وہ ایمان نہیں لائیں گے تو اللہ انھیں سرکشی میں بھٹکتا چھوڑ دیں گے۔