سورة الانعام - آیت 93

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ قَالَ أُوحِيَ إِلَيَّ وَلَمْ يُوحَ إِلَيْهِ شَيْءٌ وَمَن قَالَ سَأُنزِلُ مِثْلَ مَا أَنزَلَ اللَّهُ ۗ وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا أَنفُسَكُمُ ۖ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتا ہے جس نے اللہ پر بہتان باندھا یا جس نے کہا کہ میری طرف وحی کی گئی ہے حالانکہ اس کی طرف کچھ بھی وحی نہ کی گئی ہو، یا جو کہتا ہے کہ میں بھی ایسی چیز نازل کرسکتا ہوں جو اللہ نے نازل [٩٥] کی ہے؟ کاش آپ ان ظالموں کو دیکھیں جب وہ موت کی سختیوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور فرشتے ان کی طرف اپنے ہاتھ پھیلائے ہوتے ہیں (اور کہتے ہیں) :’’لاؤ، اپنی جانیں نکالو۔ آج تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا کیونکہ تم ناحق باتیں [٩٦] اللہ کے ذمہ لگاتے تھے اور اس کی آیتوں (کو ماننے کے بجائے ان) سے تکبر کرتے تھے‘‘

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

سب سے زیادہ ظالم کون ہے؟ اس آیت میں سب سے بڑے ظالموں کی تین اقسام بیان فرمائیں۔ (۱) بہتان باندھنا۔ (۲) بغیر وحی کے یہ کہنا کہ میری طرف وحی کی گئی۔ (۳) اور یہ کہنا کہ میں بھی وہ نازل کرسکتا ہوں جو اللہ نے نازل کیا ہے۔ بہتان باندھنا: اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو شرک و بدعات کی مختلف اقسام خود تراش کر ان کو شریعت سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ لوگ بھی جو اللہ کی آیات کا غلط مطلب نکال کر اور غلط تاویل کرکے غلط فتوے دیتے ہیں اور عارضی فوائد حاصل کرتے ہیں۔ (۲) جھوٹے نبی: جنھوں نے نبی خاتم انبیاء کے بعد اپنی نبوت کا دعویٰ کیا یا کریں گے جیسے مسیلمہ کذاب اسود عنسی، سجاح بنت حارث اور مرزا غلام احمد قادیانی ۔ اور ایسے ہی دوسرے لوگ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میرے بعد تیس کے لگ بھگ ایسے کذاب اور دجّال پیدا ہونگے جو اپنی نبوت کا دعویٰ کریں گے۔‘‘ (ابو داؤد: ۴۳۳۵، مسند احمد: ۲/ ۴۵۷، ح: ۹۸۹۷) وہ لوگ جو یہ دعویٰ کریں کہ ہم قرآن جیسی چیز نازل کرسکتے ہیں جیسا کہ ایک دفعہ کفار مکہ نے بھی کہا تھا۔ ارشاد ہے: ﴿لَوْ نَشَآءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هٰذَا﴾ (الانفال) ’’اگر ہم چاہیں تو اس کے برابر ہم بھی کہہ دیں۔‘‘ حالانکہ جب قرآن نے ان کو ایسی ایک ہی سورت بنا لانے کاچیلنج دیا تو اپنی بھرپور اجتماعی کوششوں کے باوجود اس کی نظیر لانے پر قادر نہ ہوسکے۔ موت کی سختیاں: فرشتے ہاتھ بڑھا رہے ہیں ۔ یعنی جان نکالنے کے لیے جو اللہ پر جھوٹا الزام لگائیں انکو سزا بھی سب ظالموں سے بڑھ کر ہوگی۔ ان پر موت طاری ہوتے ہی فرشتے نہایت شدت اور سختی کے ساتھ ان کی روحیں قبض کریں گے۔ ذلت کا عذاب سے مراد: عذاب قبر۔ یعنی دنیا کی زندگی اور آخرت کی زندگی سے قبل ایک درمیان کی زندگی ہے جیسے عالم برزخ کہتے ہیں ۔ یہ عرصہ انسان کی موت سے قیامت كے وقوع تک کا عرصہ ہے یہ برزخی زندگی کہلاتی ہے چاہے انسان کو کسی درندے نے کھالیا ہو، اس کی لاش سمندر کی موجوں کی نذر ہوگئی ہو یا اسے جلا کر راکھ بنا دیا گیا ہو یا قبر میں دفنا دیا گیا ہو۔ یہ برزخ کی زندگی ہے جس میں عذاب دینے پر اللہ تعالیٰ قادر ہے۔