وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ آزَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا آلِهَةً ۖ إِنِّي أَرَاكَ وَقَوْمَكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
اور (وہ واقعہ یاد کرو) جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر [٨١۔ ١] سے کہا تھا : کیا تم نے بتوں کو الٰہ بنا لیا ہے؟ میں تو تجھے اور تمہاری قوم کو کھلی گمراہی میں دیکھتا ہوں
یہاں ابراہیم کا واقعہ پیش کیا جارہا ہے ابراہیم کی بعثت سے پہلے عراق کے علاقہ میں چاند، سورج،ستاروں کی تصوراتی اشکال بناکر مندروں میں رکھتے اور اپنی زندگی، موت، مرض، صحت و خوشحالی، تنگ دستی اور ایسے کئی امور کو سیاروں کی چال سے منسوب کرتے تھے۔ آپ نے ایسے ماحول میں پرورش پائی۔ آپ کو معلوم ہوا کہ فلاں قسم کے بت فلاں ستارہ کے ہیں۔ فلاں بت چاند کے اور فلاں سورج کے ہیں۔ معاشرہ کی ان حرکات سے اور گھر کے ایسے ماحول سے انکی طبیعت بے زار رہتی تھی۔ ایک دن انھوں نے رات کو ایک چمکدار ستارہ دیکھا جو کچھ عرصہ بعد مغرب میں جاکر غروب ہوگیا۔ پھر چاندکو دیکھا وہ بھی غروب ہوگیا پھر سورج پر غور کیا، انھوں نے سوچا جو چیزیں نظم و ضبط کی اس قدر پابند اور اپنے اپنے کام پر مجبور و بے بس ہیں وہ خدا کیسے ہوسکتی ہیں۔ آپ نے طویل مدت ان حالات پر غور کیا۔ بالآخر اللہ نے خود آپ کی راہنمائی کی اور وحی کے ذریعے کائنات کے اسرار آپ پر کھول دیے آپ نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ آپ مدت سے سوچ رہے تھے کہ اس قوم کو کیسے گمراہیوں سے نکالیں جب آپ کو یقین ہوگیا تو سب سے پہلے اپنے گھر سے اصلاح کا آغاز کیا اور اپنے باپ سے کہا کہ آپ نے اور آپ کی قوم نے مندروں میں جو بت ٹکا رکھے ہیں اور انھیں اپنا حاجت روا سمجھتے ہیں تو یہ انتہائی غلط روش اور سراسر گمراہی ہے باپ نے ڈانٹ کر خاموش کردیا۔ تو آپ نے قوم کے دوسرے لوگوں کو یہی ہدایت کی باتیں سمجھانا شروع کردیں۔ سورۃ مریم میں ہے اے ابا جان! مجھے ڈرلگتا ہے کہ کہیں آپ رحمٰن سے دور نہ ہوجائیں اور شیطان کے جال میں پھنس جائیں۔ خالق کے مقابلے مخلوق کی اطاعت نہیں۔