سورة الانعام - آیت 73

وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۖ وَيَوْمَ يَقُولُ كُن فَيَكُونُ ۚ قَوْلُهُ الْحَقُّ ۚ وَلَهُ الْمُلْكُ يَوْمَ يُنفَخُ فِي الصُّورِ ۚ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ۚ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

وہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو حق کے [٨٠] ساتھ پیدا کیا ہے اور جس دن وہ (قیامت کو) کہے گا کہ ’’ہوجا‘‘ تو وہ (قائم) ہوجائے گی۔ اس کی بات سچی ہے اور جس دن صور میں [٨١] پھونکا جائے گا اس دن اسی کی حکومت ہوگی۔ وہ چھپی اور ظاہر سب باتوں کو جاننے والا ہے اور وہ بڑا دانا اور ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

تخلیق کائنات کا مقصد: قرآن میں یہ بات جگہ جگہ بیان کی گئی ہے کہ اللہ نے زمین و آسمانوں کو بر حق پیدا کیا ہے اس کا مطلب ہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق محض کھیل کے طور پر نہیں ہوئی، یہ کسی بچے کا کھلونا نہیں کہ محض دل بہلانے کے لیے اس کے ساتھ کھیلتے ہوئے مختلف شکلیں بنائے اور پھر خود ہی انھیں ڈھاکر مٹی میں ملا دے بلکہ زمین و آسمان کو ایک خاص مقصد کے تحت پیدا کیا ہے اور یہ ساری چیزیں انسان کی خدمت پر مامور ہیں۔ اور انسان ہی ساری کائنات میں اشرف المخلوقات ہے جس کو قو ت تمیز،ارادہ اور اختیار دیا گیا ہے۔ تاکہ اُسے آزمایا جاسکے کہ آیا وہ اختیاری امور میں بھی اللہ کا فرمانبردار بن کر رہتا ہے یا نہیں۔ سورۃ الرحمٰن میں فرمایا ’’اے گروہ جن و انس اگر زمین و آسما ن کے کناروں سے نکل کر بھاگ سکتے ہو تو بھاگ کر دکھاؤ؟ نہیں بھاگ سکتے تم جہاں بھی جاؤ گے اللہ کو پاؤ گے۔ قول الحق: سے مراد اس کی بات سچ ہے احکامات حق ہیں کائنات میں جو کچھ ہے سب حق ہے قیامت کا برپا ہونا حق ہے۔ رسول اللہ کی دعا: اے اللہ! تعریف تو تیرے لیے ہے تو زمین و آسمان کا نور ہے اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اور تعریف تیرے لیے کہ تو زمین و آسمان کا رب ہے۔ اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ۔ تیری بات حق، تیری ذات حق، تیرا وعدہ حق، تیری ملاقات حق، جنت حق دوزخ حق، قیامت حق اے اللہ میں تیرا ہی فرمانبردار ہوں، تجھ پر ایمان لے آیا تجھ پر بھروسہ کرلیا میں تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں اور تیرے لیے لوگوں سے جھگڑتا ہوں اور تجھ ہی سے فیصلہ چاہتا ہوں تو میرے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کردے۔‘‘ (بخاری: ۱۱۲۰) کُنْ فَیَکُوْنُ: جس دن اللہ تعالیٰ اس نظام کو درہم برہم کرنا چاہے گا تو فرمائے گا۔ (کُنْ فَیَکُوْنُ) ہوجا تو جو وہ چاہے گا ہوجائے گا لہٰذا اس دن سے ڈرو۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صور دو بار پھونکا جائے گا۔ اور ان دونوں میں چالیس کا فاصلہ ہوگا لوگوں نے پوچھا ’’چالیس دن‘‘ کہنے لگے میں نہیں کہہ سکتا، لوگوں نے کہا ’’چالیس ماہ کا ‘‘ کہنے لگے میں نہیں کہہ سکتا پھر لوگوں نے پوچھا ’’چالیس برس کا‘‘ کہنے لگے میں نہیں کہہ سکتا اس کے بعد ابوہریرہ نے کہا اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش برسائے گا تو لوگ زمین سے اس طرح اُگ آئیں گے جیسے سبزہ اُگ آتا ہے دیکھو! آدمی کے بدن کی ہر چیز گل سڑ جائے گی مگر ایک ہڈی (کی نوک) وہ اس مقام کی ہڈی ہے جہاں جانور کی دم ہوتی ہے قیامت کے دن اسی ہڈی سے مخلوق کو جوڑ کر مکمل کر دیا جائے گا۔ (مسلم: ۲۹۴۰) جس دن صور پھونکا جائے گا، غیب کا پردہ ہٹ جائے گا اپنے اعمال درست کرلو۔ اس سے پہلے کہ قہار و جبار کے سامنے کچھ نہ کر سکو۔ چھپی اور ظاہر باتوں کا جاننے والا: اللہ ان سب چیزوں کا جاننے والا ہے۔ جو سب مخلوقات سے چھپی یا پوشیدہ ہیں شہادت سے مراد: وہ سب کچھ جو مخلوقات کے لیے ظاہر اور معلوم ہے ۔ معبود حقیقی کی چند صفات: معبود ان باطل اور ان کے پرستاروں کی تردید کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں معبود حق کی چھ صفات بیان کی ہیں۔ (۱)زمین و آسمان اور کائنات کو تعمیری نتائج کا حامل بنا کر پیدا کیا۔ (۲)اس کائنات میں وسعت پیدا کرتا رہتا ہے تغیر وتبدل بھی کن فیکون کہنے سے ہوجاتا ہے۔ (۳) اس کا ہر حکم سچا اور ٹھوس حقیقت پر مبنی ہے۔ (۴)جس دن روز آخرت لانا منظور ہوگا تو عالم آخرت میں فرمانروائی اس کی ہوگی۔ (۵) غیب اور شہادت سے مراد یعنی جو چیزیں انسان کی دسترس میں ہیں یا اس کے سامنے موجود ہیں، غیب سے مراد ایسی اشیاء یا قوانین جو انسان کے علم میں نہیں آئے خواہ وہ ماضی سے تعلق رکھتے ہوں یا مستقبل سے جن تک تا حال انسان کی رسائی نہیں ہوسکی ایسی سب باتیں اللہ کے علم میں ہیں۔ (۶)اللہ کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہوتی ہے اور وہ پوری طرح با خبر ہے۔ اس دن حکومت اسی کی ہوگی: یعنی جب اس روز پردہ اٹھایا جائے گا اور حقیقت بالکل سامنے آجائے گی تو معلوم ہوجائے گا کہ وہ سب جو بااختیار سمجھے جاتے تھے یانظر آتے تھے آج وہ بالکل بے اختیار ہیں اور بادشاہی کے سارے اختیارات اسی ایک خدا کے لیے ہیں جس نے کائنات کو پیدا کیا ہے۔