قُلْ أَنَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُنَا وَلَا يَضُرُّنَا وَنُرَدُّ عَلَىٰ أَعْقَابِنَا بَعْدَ إِذْ هَدَانَا اللَّهُ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّيَاطِينُ فِي الْأَرْضِ حَيْرَانَ لَهُ أَصْحَابٌ يَدْعُونَهُ إِلَى الْهُدَى ائْتِنَا ۗ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَىٰ ۖ وَأُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ
آپ ان کافروں سے کہئے کہ کیا ہم اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکاریں جو نہ ہمیں فائدہ دے سکتے ہیں اور نہ ہمارا [٧٨] کچھ بگاڑ سکتے ہیں؟ جب اللہ نے ہمیں ہدایت دی ہے تو کیا اس کے بعد ہم الٹے پاؤں پھر جائیں؟ جیسے کسی کو جنگل میں شیطانوں نے بہکا دیا ہو اور وہ حیران و پریشان ہو۔ اور اس کے ساتھی اسے پکار [٧٩] رہے ہوں کہ اگر ہدایت درکار ہے تو ادھر ہمارے پاس آؤ۔ آپ انہیں کہئے کہ : ہدایت تو وہ ہے جو اللہ دے اور ہمیں تو یہی حکم ہوا ہے کہ ہم رب العالمین کے فرمانبردار بن جائیں
یہ ان لوگوں کی مثال ہے جو ایمان کے بعد کفر اور توحید کے بعد شرک کی طرف لوٹ جائیں ان کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ایک شخص اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گیا جو سیدھے راستے پر جارہے ہوں اور بچھڑ جانے والا حیران و پریشان جنگلوں میں بھٹکتا پھر رہا ہو ساتھی اُسے بلا رہے ہوں۔ مشرکوں کا اپنے ساتھیوں کو دعوت دینا: عرب کے دورِ جاہلیت میں ہر قبیلے کا حاجت روا اور مشکل کشا الگ الگ تھا کسی کا ہبل کسی کا لات کسی کا منات اور کسی کا عزا، دیوی دیوتاؤں کو ماننے والے تھے۔ عیسائیوں کے بھی تین خدا تھے اور چوتھا حضرت مریم کو بھی خدائی مقام پر فائز کردیا۔ مسلمانوں میں پیر فقیر اور بزرگ ان کا حاجت روا ہے۔ اگر کسی قبر پر نذر نیاز چڑھانے سے حاجت روائی نہیں ہوتی تو کسی دوسرے بڑے بزرگ کی قبر پر چلاجاتا ہے پھر تیسرے کی اور یہ بھیجنے والے شیطان ہی ہوتے ہیں۔ اور بھٹکنے والے کو سمجھ نہیں آتی کہ کدھر جائے ہر الٰہ کے پرستار اسے اپنی طرف بلاتے ہیں کہ ادھر آؤ جس سے تمہاری مرادیں بر آئیں گی۔ نفع و نقصان کا مالک اللہ ہے: اس آیت میں ایک بڑی حقیقت بیان کی جارہی ہے کہ حقیقی معبود ہستی وہ ہوسکتی ہے جو کسی کو فائدہ دے اسکی مشکلات دور کرسکے، کسی کو ماننے کے لیے دو صفات کا ہونا ضروری ہے۔ (۱)نفع۔ (۲)نقصان اور یہ دلیل ہے شرک کرنے والوں کے لیے۔ اللہ وہ ہستی ہے جو کسی کا محتاج نہیں۔ تمام معبود ان باطل خواہ وہ زندہ ہوں یا فوت شدہ دیوی ہوں یا دیوتا، پتھر ہوں یا شجر یا جن انبیاء و امام یا بزرگ کو اعلیٰ منصب عطا کیا جاتا ہے آپ دیکھیے کہ ان کی زندگی میں کوئی مشکل وقت آیا تھا اور کیا انھوں نے اپنے آپ کو اس سے بچا لیا تھا اور اگر وہ اپنے آپ کو نہ پچا سکے تو پھر دوسروں کو کیسے بچائیں گے۔ الٰہ تو صرف ایک اللہ ہی ہے: مشرکوں کی مثال دے کر اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر سے فرمایا کہ ان سے بحث نہ کرو انھیں بس یہی کہہ دو کہ ہمیں تو اللہ کا یہی حکم ہے کہ ہم اس کے فرمانبردار ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ مَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ اَوْ تَهْوِيْ بِهِ الرِّيْحُ فِيْ مَكَانٍ سَحِيْقٍ﴾ (الحج: ۳۱) ’’اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائے گویا وہ آسمان سے گر گیا پھر چاہے اُسے پرندے اُچک لے جائیں یا ہوا اڑا کر کہیں اور لے جائے۔‘‘ ابن ماجہ کی روایت ہے کہ ’’مجھے میرے خلیل نے وصیت کی ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا اگرچہ تجھے ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے۔ اگرچہ تجھے جلا دیا جائے اور فرض نماز کو جان بوجھ کر ترک نہ کرنا جس نے ایسا کیا اللہ کی پناہ اس سے اٹھ گئی۔‘‘ (ابن ماجہ: ۴۰۳۴، مسند احمد: ۵/ ۲۳۸، ح: ۲۲۰۷۳) اچھے دوست سیدھے راستے کی طرف پکار رہے ہیں۔مصرعہ! (مجھے بتا تو صحیح کافری کیا ہے)۔ اللہ نے رسول اللہ سے فرمایا، آپ کہہ دو راہنمائی تو یقینا اللہ کی رہنمائی ہے اور اچھے ساتھی اللہ ہی کی طرف بلاتے ہیں اور اچھے ساتھیوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اللہ کے فرمانبردار رہیں۔