سورة الانعام - آیت 66

وَكَذَّبَ بِهِ قَوْمُكَ وَهُوَ الْحَقُّ ۚ قُل لَّسْتُ عَلَيْكُم بِوَكِيلٍ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور آپ کی قوم نے اسے (قرآن کو) جھٹلا دیا۔ حالانکہ [٧٣] وہ حق ہے۔ آپ ان سے کہئے کہ میں تم پر داروغہ نہیں (کہ تمہیں راہ راست پر لا کے چھوڑوں)

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

میں داروغہ نہیں: یعنی میرا کام یہ نہیں کہ جو کچھ تم نہیں دیکھ رہے میں تمہیں زبردستی دکھاؤں اور جو کچھ تم نہیں سمجھ رہے وہ زبردستی تمہاری سمجھ میں اُتار دوں اور میرا یہ کام بھی نہیں کہ اگر تم نہ دیکھو نہ سمجھو تو میں تم پر عذاب نازل کردوں میرا کام تو صرف حق و باطل کو علیحدہ کرکے تمہارے سامنے پیش کرنا ہے۔ اب اگر تم نہیں مانتے تو جس بُرے انجام سے میں تمہیں ڈراتا ہوں وہ اپنے وقت پر خود تمہارے سامنے آجائے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا يَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا يَسْتَقْدِمُوْنَ﴾ (الاعراف: ۳۴) ’’ہر قوم کے لیے مہلت کی ایک مدت مقرر ہوتی ہے۔ پھر جب کسی قوم کی مدت آن پہنچتی ہے تو ایک گھڑی آگے پیچھے نہیں ہوتی۔‘‘ قوموں کے عروج و زوال کا بھی وقت مقرر ہے۔ تاریخ ابن خلدون میں ہے کہ کم از کم عروج 40سال اور زوال 40سال ہوتا ہے۔