قُلْ مَن يُنَجِّيكُم مِّن ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُونَهُ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً لَّئِنْ أَنجَانَا مِنْ هَٰذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ
آپ ان سے پوچھئے کہ : بحر و بر کی تاریکیوں میں پیش آنے والے خطرات سے تمہیں کون نجات دیتا ہے؟ جسے تم عاجزی کے ساتھ اور چپکے چپکے پکارتے ہو کہ اگر اس نے ہمیں (اس مصیبت سے) نجات دے دی تو ہم [٧٠] ضرور اس کے شکر گزار ہوں گے
اگر تو نے ہمیں بچالیا: تو ہم ضرور شکر گزار ہوجائیں گے۔ مشکل حالات میں انسان اللہ کی طرف جھک جاتا ہے اللہ سے دعائیں کرتا ہے اگر سمندر اور خشکی میں ایسا واقعہ پیش آجائے اور موت سامنے کھڑی نظر آنے لگے تو بے بسی کے عالم میں کبھی تو اللہ کو پکارتا ہے کبھی چپکے چپکے دل ہی دل میں گڑ گڑا کر اللہ کے حضور فریاد کرنے لگتا ہے کہ اگر آج ہمیں اللہ نے اس مصیبت سے نجات دے دی تو ہم ضرور شکر گزار بن جائیں گے، مشکل حالات میں شرک ختم ہوجاتا ہے اور انسان صرف اللہ کو پکارتا ہے۔ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں بلندی پر چڑھے تو آپ زور سے چلا کر کہنے لگے آپ نے فرمایا ’’لوگو! غور کرو، تمہارا الٰہ بہرہ نہیں ہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے تو میں لا حول ولا قوۃ پڑھ رہا تھا آپ نے فرمایا ’’تم واقف کار، قریب رہنے اور سننے والے کو پکارتے ہو یہ کلمات جنت کے خزانوں میں سے ہیں ۔ اللہ کو عاجزی سے پکارنا چاہیے دعائیں کرنی چاہئیں اللہ سنتا ہے اور عطا کرتا ہے۔ (ابو داؤد: ۱۵۲۸، مسند احمد: ۴/ ۳۹۹، ح: ۱۹۵۶۹)