ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلَاهُمُ الْحَقِّ ۚ أَلَا لَهُ الْحُكْمُ وَهُوَ أَسْرَعُ الْحَاسِبِينَ
پھر ان روحوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹایا جاتا ہے۔[٦٨] جو ان کا حقیقی مالک ہے۔ سن لو! فیصلہ کے جملہ اختیارات اسی کے پاس ہیں اور اسے حساب [٦٩] لینے میں کچھ دیر نہیں لگتی
موت کے بعد احوال: پچھلی آیت میں ہے کہ (۱) اللہ نے نگران فرشتے مقرر کر رکھے ہیں۔ (۲)انسان کو موت آتی ہے تو فرشتے اس کو قبضے میں لے لیتے ہیں اور کچھ کمی نہیں کرتے۔ (۳) پھر وہ اللہ اپنے حقیقی مالک کی طرف لوٹا دیے جاتے ہیں۔ حقیقی مولا کون ہے: پیدا کرنے والا ۔ زندگی بسر کرنے کے ذرائع مہیا کرنے والا، دیکھتا ہے کہ میری عطا کو انسان کس طرح استعمال کرتا رہا ہے جودیتا ہے وہ حساب بھی لیتا ہے۔ انسانوں کو جب چاہے اپنے پاس بلا لیتا ہے۔ تاکہ ان کے بارے میں فیصلے کرے۔ احادیث میں ہے:جب فرشتے روح قبض کرنے آتے ہیں تو فرشتوں کے رویہ سے مرنے والے کو یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اہل جنت سے ہے یا اہل دوزخ سے ۔ جنتی کی روح سے مشک جیسی خوشبو آتی ہے فرشتے جنت سے ریشم کا کفن لے کر آتے ہیں، آسمان کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ پھر اس کو عزت و اکرام سے میت میں واپس بھیج دیاجاتا ہے۔ یہ روح پکارتی ہے کہ جلدی جلدی میری تدفین کرو۔ پھر قبر میں سوال و جواب ہوچکتے ہیں تو اسے علیین میں پہنچادیا جاتا ہے جبکہ دوزخی کی روح کو فرشتے بدبودار کپڑوں میں لپیٹ کر آسمان کی طرف لے جاتے ہیں تو دروازہ ہی نہیں کھلتا۔ اسے وہاں سے میت کی طرف پھینک دیا جاتا ہے وہ پکار کر کہتی ہے کہ مجھے تدفین کی طرف نہ لے جاؤ۔ پھر جب قبر میں سوال و جواب ہوتے ہیں اور وہ اس امتحان میں ناکام رہتا ہے تو مقام سبحین میں قیامت تک کے لیے قید کردیا جاتا ہے۔(ابو داؤد: ۴۷۵۵، مسند احمد: ۴/ ۲۸۷، ح: ۱۸۵۳۴) حساب لینے میں دیر نہیں لگتی: یعنی عذاب و ثواب کا سلسلہ مرنے کے ساتھ ہی شروع ہوجاتا ہے جنتی کے لیے قبر میں جنت کی ایک کھڑکی کھول دی جاتی ہے اور وہ قیامت تک آرام کی ایسی نیند سوتا ہے جیسے دلہن سوتی ہے اور دوزخی کے لیے دوزخ کی کھڑکی کھول دی جاتی ہے جس کی وجہ سے اُسے طرح طرح کے عذاب شروع ہوجاتے ہیں، یہ قیامت کی نسبت بہت کم عذاب و ثواب ہوگا، قیامت کو حساب کتاب کے بعد دوزخی کو شدید تر عذاب ہوگا اسی طرح جنتی پر جو انعامات ہونگے وہ قبر کے انعامات سے بہت زیادہ ہونگے۔ سورۂ المومنون میں فرمایا: وہ دن جب سب لوگ بے پردہ ہونگے کوئی بات چھپی ہوئی نہ ہوگی، آج بادشاہت کس کی ہے، سارا عالم پکار اٹھے گا اللہ واحد و قہار کی۔ آج کسی سے زیادتی نہ ہوگی سب سے حساب لیا جائے گا اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ ’’ابن آدم سے روز قیامت پانچ سوال کیے جائیں گے۔ (۱) عمر کن کاموں میں گزاری۔ (۲)جوانی کن کاموں میں بسر کی۔ (۳)علم کتنا حاصل کیا اور اس پر کہاں تک عمل کیا۔ (۴) مال کہاں سے کمایا۔ (۵) اور کہاں خرچ کیا۔‘‘ اور ایک روایت میں آتا ہے کہ پانچ چیزوں کو موت سے پہلے غنیمت سمجھو۔ (۱)جوانی کو بڑھاپے سے پہلے۔ (۲)اپنی صحت کو بیماری سے پہلے ۔ (۳) فرصت کو مشغولیت سے پہلے۔ (۴) مالداری کو فقیری سے پہلے۔ (۵) زندگی کو موت سے پہلے۔ (ترمذی: ۲۴۱۶)